علامہ اقبال کی نظمیں: لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری
(رضا علی عابدی اُردو زبان و ادب کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جو دنیا بھر میں اُردو زبان کے سفیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کی وجہ شہرت بی بی سی ، لندن کی اردو نشریارت سے وابستگی رہی۔ آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ جرنیلی سڑک، شیر دریا، ریل کہانی، ریڈیو کے دِن، ریڈیو کی راتیں اور کتابیں اپنے آباء کی۔۔۔آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔
زیر ِ نظر تحریر علامہ اقبال کی نظم 'بچے کی دعا' کی خوب صورت تشریح کی گئی ہے۔یہ نظم ہر اسکول میں صبح کی اسمبلی میں پڑھی جاتی ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے خوب صورت تحریر)
آج ایک نظم کی بات ہے۔ اردو زبان کی مقبول ترین نظم جو بچے بچے کے دل سے نکلی، زبان پر آئی اور امر ہوگئی۔ ایک ایسی نظم جو سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں سے بھی بڑھ کر کروڑوں نے پڑھی، سُنی ، گنگنائی اور زبانی یاد کرلی۔ جس میں صرف چھے اشعار ہیں، کہنے کو چھ لیکن ان میں چھپے ہوئے معنی گنے جائیں تو ہزار۔ جو کوئی بھی اس نظم کو پڑھتا ہے، اس پر ایک جُدا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن لمحوں میں یہ نظم پڑھی جاتی ہے، پڑھنے والے کے کان میں ایک صدا ضرور آتی ہے۔ آمین کی صدا:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدیا میری
(علامہ) اقبال کی بانگِ درا کے اوراق کھولے جائیں، اتنے بڑے شاعر کی اتنی بڑی کتاب کے شروع ہی میں بچوں کی نظمیں شامل ہیں: ایک مکڑا اور مکھی۔ ایک پہاڑ اور گلہری۔ہمدردی۔ ماں کا خواب اور پرندے کی فریاد۔ یہ سب کتاب میں چھوٹے چھوٹے تاروں کی طرح بکھری ہوئی ہیں لیکن ان تاروں کے بیچ ایک شمع کی نازک سی لَو اپنا نور سارے عالم میں پھیلا رہی ہے۔ وہ علم کی شمع ہے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدیا میری
مزید پڑھیے: علامہ اقبال کے آخری لمحات اور کچھ خاص باتیں
مجھے یقین ہے کہ جب اقبال یہ شعر لکھ رہے ہوں گے، ان کے اندر چھپے ہوئے ایک کم سِ ن اقبال نے قلم سنبھال ہوگا۔ مجھے وہ حکایت یاد ہے کہ کسی بزرگ نے ایک جوان کو یوں دعا مانگتے سنا کہ اے اللہ! تو دلوں کا حال جانتا ہے، بس میری تمنا پوری کردے۔ یہ سن کر بزرگ نے جوان سے کہا کہ اللہ کو تمہارا دعا مانگنا پسند ہے لیکن اسے یہ بھی پسند ہے کہ تم اپنی تمنا بیان کرو۔ یہاں ہمارا کم سِن اقبال یہی کررہا ہے۔ اس کے دل میں جو تمنا ہے ، وہ اس کے ہونٹوں پر آرہی ہے اور یہی نہیں۔ دعا بن کر آرہی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ بچے کے ہونٹوں پر آنے کے لئے اس کی کون سی تمنا بے قرار ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر وہ اپنی سب سے بڑی تمنا کا انتخاب کرے گا۔ اور یہ رہی وہ تمنا: زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔اللہ کی بارگاہ میں دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھائے یہ بچہ بہت کچھ مانگ سکتا تھا مگر اس کی تمنا یہ ہے کہ اس کی زندگی شمع کی وہ لَو بن جائے جو ہر طرف اجالا پھیلائے۔ وہ خود یہ بات کہے بغیر نہ رہ سکا:
دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہوجائے
یہ بھی پڑھیے: اقبال کی غزل گوئی:ابتدائی غزلوں کی روشنی میں
ہمارے کم سِن دعافو کو یہ احساس ہے کہ دنیا میں اندھیرا ہے۔ اس نے زمانہ دیکھا ہے، وقت کا مشاہدہ کیا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ دنیا پر تاریکی کے بادل چھائے ہیں۔ چنانچہ اس کی تمنا یہی ہے کہ میں نہ صرف شمع بنوں بلکہ ایسی شمع جس کے دَم سے یہ اندھیرا چَھٹ جائے۔ وقت بدلے اور کچھ یوں ہو کہ اس کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہوجائے۔کہنے کو یہ بچے کی دعا ہے لیکن لہجہ ہونا ہو، اقبال کا ہے۔ دنیا کی بات کرتے کرتے ننھے دعاگو کو خود اپنی سرزمین کا خیال آتا ہے:
ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
کم سِن دعاگو نے پہلے چاہا کہ اس کے دَم سے اندھیرا دُور ہوجائے۔ اب اُس کی تمنا ہے کہ اس کے دَم سے وطن کی زینت ہو لیکن وہ کم عمر ہے اس لئے وطن کی زینت بڑھانے کے لئے کوئی بڑی شے تو نہیں بن سکتا اس لئے وہ پھول بن جانے کی دعا کررہا ہے اور پھول بھی وہ کہ وہ کِھلے تو پورا چمن کِھل اُٹھے۔ میں اپنی بات دہراتا ہوں، ان اشعار میں اقبال نہیں بول رہے ہیں، یہ آواز صاف ننھے اقبال کی ہے۔ ایک بار پھر وہ ایک بڑی تمنا کررہے ہیں:
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!
گفتگو براہ راست اللہ سے ہے اور تمنا بھی ایسی جو صرف ربِ کائنات ہی پوری کرسکتا ہے۔ بچہ پروانے کی صورت جینا چاہتا ہے اور اس کے ذہن میں وہ پروانہ ہے جو شمع کے گرد طواف کرتا ہے اور اس کے نور سے اپنا دامن بھرنا چاہتا ہے۔ جینے کی اس اُمنگ کا نتیجہ کہ اُس نے محبت کرنے کے لئے جو شمع چُنی ہے وہ علم کی شمع ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی دوسری شمع ہوسکتی ہے؟ شایَد نہیں۔
اب ہم آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں اپنی تمنا لَب پر لانے والا کوئی دوسرا نہیں، خود اقبال ہیں جو ہمیں سلطانی جمہور کی نوید سنا چکے ہیں۔ آپ بھی سنئے:
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
دعا کرنے والا ایک بچہ ہے جس کے سامنے پوری عمر ہے۔ اس عمر کے لئے وہ کون سا جذبہ اور کون سا احساس مانگ رہا ہے۔ غریبوں کی حمایت کی خواہش کرنے والا بچہ آنے والے زمانوں کے لئے ہماری آس بندھاتا ہے۔ سینے میں محبت کی لَو روشن ہو اور محبت بھی دردمندوں اور ضعیفوں سے ، سوچئے کہ یوں ہوجائے تو ہماری یہ دنیا یہیں بہشت بن جائے۔
یہ بھی پڑھیے: علامہ اقبال بہترین شاعری کیسے کرلیتے تھے؟
اور اب اس نظم میں کہی جانے والی آخری بات جو غور سے سنئے تو یوں لگتا ہے کہ پہلے بھی کہیں سنی ہے:
مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو، اُس رِہ پہ چلانا مجھ کو
ڈیڑھ ہزار سال پہلے آسمان سے کچھ ایسی ہی صدا تو آئی تھی کہ چلا ہم کو راہ سیدھی۔ راہ ان کی جن پر تو نے فضل کیا۔ دعا مانگنے والے ہمارے بچے کو شاید احساس بھی نہ ہو، یا شاید ہو کہ ایسی باتیں شاعر کا قلم نہیں لکھتا۔ ایسی باتیں غیب سے آتی ہیں۔ ایسی ہی باتیں سچ ہوتی ہیں کہ جب ہمارے دل سے نکلتی ہیں تو کوئی آہستہ سے کہتا ہے: آمین
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدیا میری