بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لئے

بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لئے
یہ ایک صبح تو ہے سیر بوستاں کے لئے


چلیں کہیں تو سیہ دل زمانوں میں ہوں گی
فراغتیں بھی اس اک صدق رائیگاں کے لئے


لکھے ہیں لوحوں پر جو مردہ لفظ ان میں جئیں
اس اپنی زیست کے اسرار کے بیاں کے لئے


پکارتی رہی بنسی بھٹک گئے ریوڑ
نئے گیاہ نئے چشمۂ‌ رواں کے لئے


سحر کو نکلا ہوں مینہ میں اکیلا کس کے لئے
درخت ابر ہوا بوئے ہمرہاں کے لئے


سواد نور سے دیکھیں تو تب سراغ ملے
کہ کس مقام کی ظلمت ہے کس جہاں کے لئے


تو روشنی کے ملیدے میں رزق کی خاطر
میں روشنائی کے گودے میں آب و ناں کے لئے


ترس رہے ہیں سدا خشت خشت لمحوں کے دیس
جو میرے دل میں ہے اس شہر بے مکاں کے لئے


یہ نین جلتی لوؤں جیتی نیکیوں والے
گھنے بہشتوں کا سایہ ہیں ارض جاں کے لئے


ضمیر خاک میں خفتہ ہے میرا دل امجدؔ
کہ نیند مجھ کو ملی خواب رفتگاں کے لئے