بچ بچا کر جب کہا تعریف میں کم پڑ گیا

بچ بچا کر جب کہا تعریف میں کم پڑ گیا
اور کھل کے لکھ دیا تو شعر میں ذم پڑ گیا


وقت پر نکلے تھے اور اب تک پہنچ جاتے بھی ہم
بیچ میں لیکن موا آموں کا موسم پڑ گیا


چودھویں کی رات تھی پر چاندنی تھرکی نہیں
دیکھ گھنگرو کی اداسی چاند مدھم پڑ گیا


سنگ مرمر کی زمیں پر ایک سکہ یوں گرا
دو گھڑی کو چھٹپٹایا اور بے دم پڑ گیا


اس تکلف کے شہر میں لوگ کانٹوں سے چبھے
تو جو اپنا سا لگا تو دل پہ مرہم پڑ گیا