بابا رتن ہندی
ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں۔ صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میدان میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے، اور اپنے اس زمانے کی (بہت عرصہ، بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں) کھیلیں کھیلتے تھے۔
ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے، لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اس کے ایک ساتھی ’’رتن ناتھ‘‘ نے کہا تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گیے ہیں کہ ایک ’’اوتار‘‘ اس دھرتی پے تشریف لایا ہے۔ اب رتن ناتھ کے دل میں ’’کھد بد‘‘ شروع ہو گئی کہ وہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر یہ ’’اوتار‘‘ آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہوں گا اگر ’’اوتار‘‘ دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نا مرادی کی بات ہوگی۔ چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے۔ وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جا سکتا۔ اب وہاں جانے کے ذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا۔ اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا۔ کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔ وہ چلتا گیا چلتا گیا، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گیے۔
کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے۔ وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا۔ غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے۔ اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے۔ اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کون سا دور ہے، میں یہ ٦٠٠ کلو میٹر بھی کر لوں گا۔ وہ پھر چل پڑا اور آخر کار ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں، اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ’’بابا رتن ہندی‘‘ حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا ’’لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا۔ اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہوں گے، کیسے رابطے کرتے ہوں گے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی۔ وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا۔
آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ ’’چاند کدھر سے چڑھا‘‘ وہ خوش قسمت لوگ تھے۔ ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ۔ وہ کون سی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی۔
اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو، چلو، محکمہ تو کوئی ہے نہیں کہ اطلاع مل گئی ہوگی، یہ طلب کون سی ہوتی ہے، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہوں گی، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہوں گی۔ انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں۔ انھیں آنحضور کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے، پھر وہ کون سی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو ’’اوتار‘‘ سے ملوں گا۔
بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے۔ ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں۔ جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا۔ یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گیے۔ ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہوں گے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا، میری سوچ بھی چھوٹی ہے، درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے، میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے۔
کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ہوگئی۔ ان سے ملنا ملانا ہوگیا، وہ گھر آتے رہے، ملتے رہے، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں۔ میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو۔ کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ ہندو، مسلمان عورتیں، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی، میں پڑھا لکھا شخص تھا، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں۔ لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا۔ کچھ میں نے کہا نہیں، نا کچھ بولا۔ پڑھے لکھے سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے، اس لئے کچھ نہ بولا، اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آگیا۔
بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گیے تھے۔ مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا۔ رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے، ’’لے اپنا کاکا پھڑ لے‘‘ (لو، اپنا بچہ لو) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا جی، یہ کہاں سے آگیا، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا۔
میں نے پوچھا ’’بابا جی آپ کون ہیں؟‘‘
’’تو وہ کہنے لگے، میں رتن ہندی ہوں۔ کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں، صبر سے چلتے ہیں، لمبا سفر کرتے ہیں، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں۔‘‘
ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں۔
ہم کچھ مصروف ہیں۔ کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں۔ ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی ’’تانگ‘‘ (آرزو) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔