بابا بگلوس
گرمی سے پگھلے ہوئے شہر کی ابلتی رات میں ایک بدن کو نچوڑ کر یخ کر دینے والی چیخ کا گرم سیسہ کانوں میں اترا۔ بابے بگلوس نے کروٹ بدلی۔ ایک اور چیخ کا گرم پتھر اس کی کھوپڑی پر گرا اور ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی چیخوں کے دہکتے اولے اس کے بدن پر برسے۔ کیا مصیبت ہے۔ عمارت کے اہل کار آخر رات کے وقت ہی کیوں اقبال جرم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ بابا بگلوس سونا چاہتا ہے۔ وہ شب کروٹیں بدلنے میں ہی گزری۔
’’عنایت پتر! بڑی سرکار نے تو رات بھر سونے نہیں دیا۔‘‘ دھوپ کے پہلے برچھے زمین میں کھبنے سے پیشتر بابے بگلوس نے اپنی چارپائی کوٹھری میں سے برآمدے میں گھسیٹی اور نل پر منہ ہاتھ دھوتے سپاہی سے شکایت آمیز بوڑھے لہجے میں کہا۔ عنایت مسواک منہ سے نکال کر ایک لمبی تھو کر کے بولا، ’’بابا بڑی سرکار تو دورے پر گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ بابے نے بے یقینی میں سرہلایا، ’’ساری رات چیخوں کی آوازیں آتی رہی ہیں۔ ایسی خوفناک چیخیں جو صرف بڑی سرکار کا چھتر ہی انسانوں کے تمام سوراخوں میں سے باہر نکالتا ہے۔‘‘ عنایت نے پانی کی بک منہ میں انڈیل کر بوتھی آسمان کی جانب کردی اور اس کے حلق میں سے گرر گرر کی آوازیں آنے لگیں۔ جیسے موٹر سائیکل کا پلگ شارٹ ہو جائے تو انجن رک رک کر چلتا ہے۔
’’سچ کہہ رہا ہوں عنایت ساری رات۔۔۔‘‘ بابا بدستور سر ہلاتا رہا۔
’’وہ چیخیں اس عمارت میں سے نہیں آ رہی تھیں بابا۔ اور ویسے بھی ہمارے خاص کمرے تو ساؤنڈ پروف ہیں۔‘‘
’’میں جھوٹ بول رہا ہوں؟‘‘ بابے نے جھلا کر کہا۔
’’گرمی مت کھایا کرو بابا۔ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نے چیخوں کی آوازیں سنی نہیں۔۔۔‘‘ عنایت ہنسنے لگا یا اور پھر آنکھ مار کر بولا، ’’در اصل تمہیں سمت کا اندازہ نہیں ہوسکا، چیخوں کی آواز آ رہی تھی مگر اس عمارت میں سے نہیں بلکہ باہر شہر کی طرف سے۔‘‘
’’شہر کی طرف سے؟‘‘
’’ہاں اب چیخوں کی آوازیں ادھر سے ہی آیا کرتی ہیں۔‘‘
’’کوئی نیا بندی خانہ کھل گیا ہے؟‘‘
’’کوئی ایک۔۔۔‘‘ عنایت نے مسواک منہ میں ٹھونسی اور اپنی بیرک میں چلا گیا۔ بابے بگلوس نے اپنا سفید بگلا سر کھجلایا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ ڈربہ نما تنگ کو ٹھریوں، بیرکوں، دفتروں، تہ خانوں اور اونچی اونچی دیواروں میں گھرے چوکور صحنوں کا یہ مجموعہ شہر سے باہر ایک تاریخی عمارت کے ایک ایسے کونے میں پوشیدہ تھا جس کے پہلو میں لیٹی ہوئی سڑک پر سے گزرتے سیاحوں اور عام شہریوں کو یہ گمان بھی نہ ہوتا کہ وہ وہاں موجود ہے اور وہ وہاں موجود تھا۔ لوگ پکنک کی ٹوکریاں اٹھائے، کیمرے لٹکائے صرف بلند دیواروں کو دیکھ پاتےاور ماضی کے بادشاہوں کی عظمت کا دباؤ سینے پر محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔
یہ عمارت باقاعدہ قسم کا قید خانہ نہیں تھی، مجرموں کو صرف عارضی طور پر یہاں لایا جاتا تھا۔ صرف ایسے مجرم جن کے جرم کا حوالہ دنیا کی کسی قانونی کتاب میں نہیں ملتا تھا۔ آغاز بڑی سرکار کے چھتر سے ہوتا، جو ان کو ہموار کرتا اور پھر جدید ترین درآمد شدہ آلات ان کے جسموں پر باندھ کریا ان کے سوراخوں میں فٹ کر کےان سے اقبال جرم کروا لیا جاتا۔ بیشتر قیدی اپنے جرم کی اس تفصیل پر فوراً دستخط کر دیتے جو بڑی سرکار کی بڑی سرکار نے بھیجی ہوتی۔ مگر کچھ کند ذہن ان آلات میں جکڑے ہوئے سپورٹس مین سپرٹ کو بالائے طاق رکھ کر یونہی مر جاتے اور پھر ان کی لاشیں بلند دیواروں سے پھینک کر اعلان کر دیا جاتا کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اتنی کند ذہنیت کا مظاہرہ خودکشی ہی تو ہے جب کہ صرف دستخط کرنے سے انسان زندہ رہ سکتا ہو۔
یہ عمارت ایک عرصے سے یہاں موجود تھی۔ حزب مخالف کے سیاسی راہنما جب ان کوٹھریوں میں لائے جاتے تو وہ برف کی سلوں پر بندھے ہوئے خلوص دل سے تہیہ کر لیتے کہ جونہی حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئے گی، وہ اس منحوس عمارت کو ڈھا کر یہاں پر ایک عمدہ قسم کا چلڈرن پارک بنوا دیں گے۔ مگر جب بھی ایسا ہوتا، یعنی ان کی پیٹھیں برف کی سلوں کی بجائے کرسی اقتدار پر جمتیں تو چلڈرن پارک کے لئے کوئی اور جگہ تلاش کر لی جاتی اور یہ عمارت نظریہ ضرورت کے تحت اسی طرح اسی بڑی سرکار کے زیر نگرانی موجود رہتی کہ ہر حکومت کی ڈور پر کانٹیاں ڈالنے والے بھی موجود ہوتے اور انہیں سیدھا کرنے کے لئے اس عمارت کا وجود رہتا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمارت موجود تھی، اب بھی ہے اور تب تک رہے گی جب تک کہ ایک ایسی نسل سامنے نہیں آ جاتی جو سات کروڑ ننگے پاؤں اور چیتھڑوں میں ملبوس فاقہ زدہ بچوں کے لیے سچ مچ ایک عظیم چلڈرن پارک نہیں بنا دیتی۔ ہاں تو مجرموں کو یہاں صرف عارضی طور پر لایا جاتا اور وہ چند روز یہاں خون تھوک کر یا اپنا ایک آدھ عضو ناکارہ کروانے کے بعد یا بالکل ہی فوت ہو جانے کے بعد یہاں سے باہر چلے جاتے مگر بابا بگلوس یہاں ہمیشہ سے رہتا تھا۔
محکمۂ سیاحت کا ایک گائیڈ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے ایک میلے کو تاریخی عمارت کے سرخ ستونوں، شیش محلوں، باغوں، دیوانوں اور زیر زمین راستوں میں سے گھماتا پھراتا قدیم اسلحہ کے عجائب گھر میں داخل ہو گیا۔
’’خواتین و حضرات!‘‘ اس نے طمنچوں، سنگینوں، نیزوں، تلواروں، ڈھالوں، زرہ بکتروں وغیرہ کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائی، ’’یہ سنگینیں جنہیں ہم نے اب پالش کروا کے نمائش پر رکھا ہے، انہیں اگر نچوڑا جائے تو خون کی ندیاں بہہ نکلیں اور یہ تلواریں ریڑھ کی ہڈیوں میں سے یوں گزرتی تھیں جیسے مکھن میں انگلی۔ ان توپوں کے دہانوں پر باغیوں۔۔۔ معاف کیجیے گا وطن پرستوں کو باندھ کر اڑا دیا جاتا تھا۔ اور یوں اس زمانے کے حکمران ایک مستحکم اور مثبت حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جن کی دہشت سے عوام فوج کے آگے کبڑے ہوکر چلتے تھے مگر بربریت کے زمانے لد چکے۔ آج کے تہذیب یافتہ عہد میں تو ان مظالم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مثلاً اس شکنجے کو ملاحظہ فرمائیے جو انگلیوں کو جوس مشین میں داخل ہوتی ہوئی گاجروں کی طرح کاٹ کر رکھ دیتا تھا۔ مگر اب ہمارے ملکی قوانین میں ایسی ایسی دفعات موجود ہیں کہ کوئی کسی کی جانب انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ ہمیں پروردگار کا شکر ادا کرنا چائیے کہ ہم اس وحشی عہد میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک ترقی یافتہ معاشرے کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔ یہ تاریخی عجائب گھر صرف جبر اور ظلم کی ایک یادگارکے طور پر محفوظ کرلیا گیا ہے تاکہ ہم آج اپنی خوش بختی پر نازاں ہو سکیں۔ اُن زمانوں میں نہ صرف قاہر حکمران عوام پر ظلم ڈھاتے تھے بلکہ فوج جنگیں لڑنے کے علاوہ معصوم شہریوں کا قتل عام بھی کرتی تھی۔۔۔ ذرا تصور کیجیے کہ۔۔۔
’’کہ اس زمانے میں فوج جنگیں بھی لڑتی تھی؟‘‘
بابا بگلوس جب دن چڑھے سوکر اٹھا تو اس نے حسب معمول باورچی خانے کا رخ کیا اور وہیں بیٹھ کر پتلی پتنگ چائے کے گھونٹوں سے باسی روٹی کے چند نوالے پیٹ میں اتار لیے۔ پھر وہ حسب معمول اپنی کوٹھری میں واپس آیا اور حسب معمول ایک کونے میں بیٹھ کر حسب معمول چھت کو گھورنے لگا۔ کتنے ہزار دنوں سے وہ اس چھت کو گھور رہا تھا؟ اسے یاد نہ تھا۔ کسی کو بھی یاد نہ تھا۔ یادداشت کی نبضیں کب چھوٹیں، کسے یاد تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے یہاں تھا۔ جیسے ان اونچی اونچی دیواروں اور کوٹھریوں کے ہمراہ معماروں نے بابے بگلوس کو بھی تعمیر کر دیا ہو۔ جتنا عرصہ صحن میں دھوپ پھیلی رہتی، وہ اپنے کونے میں جبڑے مقفل کیے، منہ اٹھائے بیٹھا رہتا، کبھی کبھار اپنی سفید داڑھی کھجلا کر مزہ لیتا اور پھر چھت کو گھورنے لگتا۔
جب دھوپ صحن کی دیواروں کو سست روی سے ناپتی اوپر اٹھ جاتی تو وہ باہر نکل آتا اور ایک بوسیدہ ٹاٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا اور اب نیلی چھت پر آنکھیں جما دیتا۔ اس کے آس پاس اہلکار لاتعلقی سے گزرتے رہتے۔ اپنے اپنے کاموں میں مصروف، زخمی جسموں کو گھسیٹتے، کوٹھریوں میں پھینکتے ہوئے، چھتروں کی مرمت کرتے ہوئے، برف کے بلاک سر پر اٹھائے جنہیں ننگے بدنوں کی گرمی سے پگھلنا ہوتا تھا۔ وہ لاتعلقی سے گزرتے رہتے جیسے باغ میں بنچ پر اونگھتے کسی بوڑھے کے قریب سے نوجوان جوڑے لاپروا ہو کر مصروف رہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
ایک شام حسب معمول بابا بگلوس اپنی کوٹھری میں سے اٹھ کر صحن میں آیا تو وہاں اس کی بیٹھک والا ٹاٹ موجود نہ تھا اور بکا ماشکی اپنے ننگے پاؤں پر نیم دائرے میں گھومتا ہوا بڑی مستعدی سے صحن میں چھڑکاؤ کر رہا تھا۔
’’کسی بادشاہ نے آنا ہے؟‘‘ بابے بگلوس کے لیے بندی خانے میں باہر سے آنے والے تمام افسر بادشاہ تھے۔ بکے ماشکی نے مشکیزے کے نرم چمڑے کو ایک جنسی پیشہ ور کے میکانکی انداز میں پچکاتے ہوئے ’’ہوں‘‘ کیا اور پانی چھڑکتا رہا۔
بابا اپنے ٹاٹ کے بغیر ہی کونے میں بیٹھ گیا اور آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ چھڑکاؤ مکمل ہوا تو ایک صوفہ سیٹ اور چند کرسیاں برآمدے میں سجادی گئیں، پھر اہلکار لکڑی کی بنی ہوئی ایک دو سانگھی اٹھا کر لائے اور اسے صحن کے درمیان میں نصب کر دیا۔ دور سےیوں لگتا جیسے یہ سٹینڈ کسی مصور کے لیے وہاں رکھا گیا ہے اور وہ ابھی آئے گا اور اس پر کینوس رکھ کر بندی خانے کی تصویر کشی شروع کردے گا۔ مگر اس سٹینڈ پر تصویروں کی بجائے زندہ ماڈل رکھے جاتے تھے۔ اسی دوران چند بھاری بوٹوں والے، بندی خانے والے بڑی سرکار کے ہمراہ آئے، اور بڑی سرکار بھی ان کے سامنے جھک کر چل رہی تھی اور وہ صوفوں پر براجمان ہوگئے۔ ان کے ہمراہ تازہ استری شدہ سفید کوٹ میں ملبوس ایک ڈاکٹر بھی تھا جس کے گلے میں ایک سٹیتھو سکوپ جھول رہی تھی، موت کی سزا پانے والے مجرم کو دعائے مغفرت دینے کے لیے دیر سے آنے والے تیز تیز چلتے کسی پادری کے گلے میں لٹکتی صلیب کی طرح۔ وہ سب آپس میں گفتگو کرتے ہوئے بار بار قہقہے لگا رہے تھے۔ بھاری بوٹ گلا پھاڑ پھاڑ کر اور بڑی سرکار قدرے محتاط ہوکر۔
’’میرا خیال ہے اب شروع کردیں۔‘‘ ایک بھاری بوٹ نے سرکار سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’’سر اگر پہلے ایک کپ چائے کا ہو جائے تو کیا حرج ہے، چار بجنےکو ہیں۔۔۔‘‘ جواب کا انتظار کیے بغیر بڑی سرکار کی گرج ’’چائے‘‘ باورچی خانے تک پہنچی اور ایک اہلکار چائے کی ٹرالی گیلے صحن پر گھسیٹتا چلا آ رہا تھا۔ (اگر ادھ موئے مجرموں کے جسموں کو گیلے صحن پر گھسیٹا جائے تو زیادہ زور نہیں لگانا پڑے گا۔ آئندہ روز چھڑکاؤ ہونا چاہیے، اہلکار نے سوچا۔) چائے کے ساتھ دیگر لوازمات بھی تھے۔
’’کیک عمدہ ہے۔‘‘ بھاری بوٹ اپنی مونچھوں پر سے ذرے صاف کرتے ہوئے بولا۔
’’سر مال روڈ سے منگوایا ہے۔ میرا اپنا بندہ لے کر آیا ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے اب۔۔۔‘‘
بڑی سرکار نے کوٹھریوں کی جانب ایک نظر مخصوص ڈالی اور جیسے اس نظر کی ہتھکڑی میں بندھا ہوا ایک قیدی کا جسم وہاں سے برآمد ہو گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے دو سپاہی چل رہے تھے۔ ڈاکٹر نے فوراً اٹھ کر قیدی کو آدھے راستے میں ہی جا لیا جیسے اس کا استقبال کرنا چاہتا ہو۔ اس نے سرسری طور پر سینے کو ٹھونک بجا کر پیچھے مڑ کر دیکھا، ’’کتنے؟‘‘ بڑی سرکار نے ایک ڈکار کے درمیان میں ’’پندرہ‘‘ کا لفظ بمشکل ادا کیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے فوراً سر ہلایا اور پھر جلدی سے واپس آ کر صوفے پر بیٹھ گیا جیسے اسے ڈر ہو کہ پیالی میں بقیہ ماندہ چائے کہیں ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ بڑی سرکار نے اب کی مرتبہ کوٹھریوں کی جانب ایک اور نظرِ مخصوص ڈالی اور وہاں سے تیل میں چپڑا ایک لشکتا ہوا کریہہ المنظر آدمی لنگوٹ کو گرہ دیتا ہوا باہر نکلا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک کوڑا تھا۔ قیدی کے تمام کپڑے اتار کر اسے ٹکٹکی سے باندھ دیا گیا۔ لنگوٹیے نے بڑی سرکار کی جانب دیکھا اور ان کے سر ہلانے پر ٹکٹکی سے منہ موڑ کر دیوار کی طرف ڈگ بھرنے لگا۔ دیوار کے قریب بابا بگلوس بیٹھا تھا۔ دیکھ رہا تھا، آسمان کی طرف نہیں بلکہ اس نئے تماشے کو۔
پچھلے پانچ چھ برسوں سے اس بندی خانے میں مجرموں کی آمد معمول کے مطابق رہی تھی۔ مگر اس کے بعد پچھلے چند ماہ میں اس ٹریفک میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ پھر یکدم گرمیوں کی ایک صبح کو سپاہی عنایت نے رازدارانہ لہجے میں بتایا کہ بڑی سرکار کی بڑی سرکار کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک اور بڑی سرکار نے لے لی ہے۔ چنانچہ اگلے روز میں پچھلے تمام قیدی رہا کر دیے گئے۔ چند ہفتے بڑے امن و سکون سے گزرے۔ اہل کار سارا دن اونگھتے رہتے اور بندی خانے کی بڑی سرکار کا چھتر دھوپ میں پڑا اکڑتا رہتا۔ مگر پھر یک دم ٹریفک جاری ہو گئی۔ جاری کیا ہوگئی، باقاعدہ ٹریفک جام ہو گیا۔ ایک ایک کوٹھری میں درجنوں قیدیوں کو ٹھونسا جاتا اور بڑی سرکار نے متعدد نئی چھتروں کا آرڈر دے دیا۔ بقول سپاہی عنایت کے، اتنی رونقیں اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں۔
لنگوٹیے نے بابے بگلوس کے قریب پہنچ کر کوڑے کو ایک جھٹکا دے کر پٹاخہ سا چلایا، پھر ٹکٹکی پر بندھے جسم کی ننگی پیٹھ پر نظر یں جما کر یا علی کا نعرہ بلند کیا اور ایک بھیانک قسم کے نپے تلے قدم اٹھاتا، اپنے جسم کو لہراتا ہوا بھاگا۔ ننگی پیٹھ ے قریب جا کر کوڑا ہوا میں لہرایا مگر یک دم سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے معذرت طلب آنکھوں سے بڑی سرکار کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا واپس بابے بگلوس کے قریب آ کر کھڑا ہوا۔ یا علی کا نعرہ لگایا اور انہی مخصوص قدموں سے زگ زیگ کے انداز میں بھاگا مگر اس مرتبہ بھی وہ ننگی پیٹھ کی قربت میں پہنچ کر کوڑا ہوا میں لہرانے کے بعد یک دم کھڑا ہو گیا۔ بڑی سرکار نے بے حد شرمندہ ہو کر بھاری بوٹوں کی جانب دیکھا اور پھر گرج کر کہا، ’’اوئے ماں کے کھسم! کیا ہو گیا ہے تجھے؟‘‘
’’سرکار! پریکٹس نہیں رہی۔‘‘ لنگوٹیا لرزتے ہوئے بولا، ’’مولا کے کرم سے اب غلطی نہیں ہوگی مائی باپ۔‘‘
وہ بڑا پشیمان چہرہ لئے بابے بگلوس کے پاس آیا۔ دوڑنے سے پہلے اس کے چہرے کا رنگ مزید کالا ہو گیا۔ اور اس نے یک دم مڑ کر بابے بگلوس کی کمرمیں ایک ٹھڈا رسید کیا۔ ’’میں بھی کہوں کہ کوڑا اٹھانے سے پہلے آخری قدم ٹھیک کیوں نہیں پڑتا، یہ ماں کا یار جو یہاں بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ سرکار میری دوڑ پورے بیس قدموں کی ہوتی ہے اور یہ خبیث اسی بیسویں قدم پر بیٹھا ہوا ہے۔ اٹھ اوئے۔۔۔‘‘ بابا چپکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ لنگوٹیے نے ایک نشہ آور اطمینان سے ایک ایسے باؤلر کی طرح قیدی کی طرف دیکھا جسے معلوم ہے کہ اس کا بیس قدموں کا باؤلنگ سٹارٹ اب درست ہے اور وہ یقیناً وکٹ اکھاڑ دے گا، ننگی پیٹھ کا ماس ادھیڑ دے گا۔
بابا بگلوس اپنی کوٹھری میں آگیا اور باہر بڑی سرکار اور بھاری بوٹ چائے پیتے رہے، کیک کھاتے رہے اور پیٹھ کا ماس ادھڑتے ادھڑتے باریک قیمے میں بدلتا رہا۔ بابا بگلوس اس سے پیشتر اذیت کی بے شمار تحریریں ننگے جسموں میں کھدی ہوئی دیکھ چکا تھا لیکن یہ تماشا نیا تھا۔ مگر چند ہی دنوں میں یہ تماشا بہت ہی پرانا ہوگیا۔ روزانہ درجنوں افراد کو کوڑے لگتے۔ ڈاکٹر اب باقاعدہ معائنہ کرنے کی بجائے قیدی پر ایک نظر ڈال کر ’’پندرہ کے لیے صحت مند ہے۔‘‘ کا سرٹیفکیٹ دے دیتا اور ناظرین کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ بابے کو اس نئے تماشے پر صرف ایک ہی اعتراض تھا، وہ شام ڈھلے اپنی کوٹھری سے نکل کر صحن میں نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ کیونکہ لنگوٹیے کا سٹارٹ بیس قدم کا تھا اور وہی بیسواں قدم بابے کی نشست گاہ تھی۔
بابا بگلوس ہمیشہ سے یہاں تھا، وہ یہاں قیدی تھا بھی اور نہیں بھی۔ وہ شادی کا ایک ایسا ہار تھا جسے پہننے والا دولہا اب بوڑھا ہو چکا تھا۔ یہ ہار تہ خانے کے کسی کونے کھدرے میں پڑا ہے، اسے پھینکا بھی نہیں جا سکتا کہ اس کے لیے کوئی جواز نہ تھا۔ ٹھیک ہے پڑا رہے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر وہ شادی کب ہوئی تھی کسی کو یاد نہ تھا۔
بابا بگلوس اس بندی خانےمیں کیوں آیا، کب آیا، اور اب یہاں کیوں ہے؟ ان سوالوں کا جواب بڑی سرکار یا اہلکاروں کے پاس نہ تھا اور اس کی وجہ نہایت سادہ تھی کہ جس زمانے میں ان سب سوالوں کے جواب موجود تھے، اس زمانے میں اس بندی خانےمیں موجود بڑی سرکار اور اہلکار وہ لوگ تھے جو اب تک یا تو فوت ہو چکے تھے، یا ریٹائر ہو چکے تھے، یا پھر ملک کے دوسرے بندی خانوں میں اہم خدمات انجام دے رہے تھے۔ جو بھی نئی سرکار یہاں آتی تو پہلے روز معائنے پر نکلتے ہی سب سے پہلا سوال جو اہلکاروں سے پوچھا جاتا یہی ہوتا کہ یہ بابا یہاں کیوں آیا؟ جواب ’’معلوم نہیں سرکار‘‘ میں ہوتا۔
’’کب آیا؟‘‘
’’جی جب ہم آئے تو یہ یہیں پر موجود تھا۔‘‘
’’اب تک یہاں کیوں ہے؟‘‘ اس کا جواب بھی کچھ اس قسم کا ہوتا کہ سر اس کی رہائی کا حکم نہیں آیا۔
اور ’’کیوں نہیں آیا؟‘‘ اس کا جواب بہت آسان تھا۔ بڑی سرکار کے دفتر سے ملحقہ ایک ریکارڈ روم تھا، جہاں اس بندی خانے میں آنے والے تمام ’’جرائم پیشہ‘‘ افراد کا باقاعدہ ریکارڈ محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اصولاً بابے بگلوس کےجرائم کی فائل بھی یہیں ہونی چاہیے تھی مگر تھی نہیں۔ ہر نئی بڑی سرکار نے بابے کے رعشہ زدہ جسم کو دیکھ کر حکم دیا کہ بابے کی فائل ڈھونڈ کر لاؤ کہ آخر یہ بزرگوار کس گناہ کی پاداش میں یہاں بند ہے۔ مگر وہ فائل کبھی دستیاب نہ ہوئی اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی۔ اب چونکہ ہر مہذب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور قانون کے مطابق کسی شخص کو تب تک رہا نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کی فائل پر رہائی کے احکامات صادر نہ کیے جائیں، اس لیے بابے بگلوس کو قانونی طور پر (اور اگر ہم قانون کی پاسداری نہ کریں تو ہم میں اور درندوں میں کیا فرق رہ جائے) رہا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ وہ ہمیشہ سے یہاں تھا۔
اس کی نقل و حرکت پر یعنی بندی خانے کی حدود میں کوئی پابندی نہ تھی۔ وہ جہاں جی چاہے آ جا سکتا تھا، ہر کسی سے گفتگو کر سکتا تھا۔ تمام اہل بندی خانہ اس کے ساتھ ایک اہل خانہ کا سا سلوک کرتے تھے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کبھی بھی اس بندی خانہ سے باہر نہیں نکلا تھا۔ کبھی سال چھ ماہ بعد بابا بگلوس (در اصل یہ اس کا اصلی نام تو نہ تھا جو فائل گم ہو جانے کی وجہ سے بابے کے علاوہ اور کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ پہلے پہل اسے صرف بابا کہا جاتا تھا۔ پھر ایک روز کسی اہلکار نے اس کے سفید سر اور چٹی سفید داڑھی کو کونے میں دبکا دیکھ کر کہا، ’’بابا تو دور سے بگلا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ چنانچہ اسے بابا بگلا کہا جانے لگا جو بگڑتے بگڑتے بابا بگلوس ہو گیا۔)
ہاں تو کبھی سال چھ ماہ بعد بابا بگلوس چپ ہو جاتا، بالکل خاموش ہو جاتا، کھانے کے لیے جو روٹی ملتی اسے صحن میں بیٹھ کر چڑیوں اور کوؤں کو کھلا دیتا اور خود بالکل بھوکا رہتا۔ رات کے وقت اپنی کوٹھری میں مسلسل ٹہلتا رہتا۔ صبح سویرے اہلکار دیکھتے کہ اس کی سفید داڑھی آنسوؤں سے نچڑ رہی ہے اور وہ جان جاتے کہ یہی وہ دن ہے جو بابا بگلوس چپکے سے ان کے پاس آئے گا۔ اس کی بھیگی ہوئی داڑھی ان کے گالوں سے چھوئے گی اور وہ شرمندہ سا ہو کر کہے گا، ’’مجھے باہر لے چلو۔‘‘
چنانچہ صرف کارروائی پوری کرنے کی غرض سے دو سپاہی اس کے ساتھ نتھی کر دیے جاتے اور وہ بابے کو اس تاریخی عمارت سے باہر شہر میں لے جاتے۔ بابا بھرے پرے شہر کے شور میں بند گھڑیال کی طرح خاموش، سر جھکائے ماتمی حالت میں گھومتا رہتا اور کبھی نظر اٹھا کر نہ دیکھتا کہ اس کے آس پاس، چار چفیرے کیا ہو رہا ہے۔ پورے ایک گھنٹے کے بعد بابا اسی طرح چپکے سے سپاہی کے کان میں سرگوشی کرتا، ’’مجھے واپس لے چلو۔‘‘ اور وہ اسے واپس لے جاتے۔
حفاظتی عملے کے ارکان، دیگر اہلکار اور بندی خانے کی بڑی سرکار کی بھی شدید خواہش تھی کہ بابے بگلوس کو کسی طرح رہا کر دیا جائے مگر گم شدہ فائل ہمیشہ آڑے آ جاتی۔ کل کلاں وہ فائل کہیں سے نمودار ہو جائے اور حکومتِ وقت پوچھ لے کہ فلاں بابا کہاں گیا، تو پھر کیا ہوگا؟ چنانچہ ایک خاموش سازش کے تحت یہ طے پا چکا تھا کہ بابے کی حفاظت بالکل نہ کی جائے اور اسے فرار ہونے کے تمام تر مواقع میسر کیے جائیں مگر بابے نے انہیں ہمیشہ مایوس کیا اور اس مسئلے پر بالکل توجہ نہ دی۔ کچھ برس پہلے بابے بگلوس کی سالانہ یا ششماہی ’’مجھے باہر لے چلو‘‘ والی شہر کی سیر کے دوران سپاہی عنایت نے اس کی منت کرتے ہوئے کہا، ’’بابا! آخر تم بھاگ کیوں نہیں جاتے؟‘‘ بابے نے جھکا ہوا سر جھکا ہی رہنے دیا اور چلتا رہا۔
دوسرے سپاہی صابر نے عنایت کی ہاں میں ہاں ملائی، ’’دیکھو اگر تم بھاگ جاؤ تو ہم واپس جا کر کہہ دیں کہ جی بابا فرار ہوگیا ہے اور تمہارا کیس خود بخود ختم ہو جائے گا۔‘‘ بابے نے سرجھکائے رکھا۔
’’یہ نہیں کہ تم ہم پر بوجھ ہو۔ ہم تو تمہیں ایک بزرگ کی طرح چاہتے ہیں مگر بابا یہ تمہاری عمر ہے بندی خانے میں پڑا سڑنے کی۔۔۔ بھاگ جاؤ۔‘‘ بابے نے سر اٹھایا اور مسکرانے لگا۔
’’بھاگ جاؤں؟‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ دونوں نے اس کی ہمت بڑھائی۔
’’اچھا!‘‘ بابا منہ کھول کر بولا، ’’لیکن بھاگتے کیسے ہیں؟‘‘ یہ سوال سن کر دونوں سپاہی سوچ میں پڑگئے اور پھر یکدم عنایت نے چمک کر کہا، ’’وہ ایک سیاسی قیدی نہیں تھا جسے ہم نے الف ننگا کر کے صحن میں دُڑکی لگوائی تھی۔ بس جیسے وہ بھاگتا تھا ناں ہمارے چھتروں سے بچنے کے لیے ویسے۔۔۔‘‘ بابے نے اپنے ذہن میں اس ننگے دہشت زدہ کانپتے بدن کی تصویر زندہ کی اور پھر سر کھجا کر بولا، ’’میں بوڑھا ہوں۔ مجھ میں تو سکت نہیں اس طرح بھاگنے کی۔‘‘
’’بابا یہ ضروری نہیں کہ تم اسی طرح بھاگو۔۔۔ ہم اِدھر کی بجائے اُدھر منہ موڑ لیتے ہیں اور تم بے شک آہستہ آہستہ چلتے اطمینان سے سامنے والی گلی میں غائب ہوجاؤ۔ ہم تمہارا پیچھا نہیں کریں گے، یہیں سے واپس چلے جائیں گے۔‘‘ بابے نے داڑھی مٹھی میں دبا کر جھٹکا سا دیا۔ جیسے فیصلہ کر لیا ہو، دو تین قدم چلا مگر پھر کھڑا ہو گیا۔
’’اب کیا ہوا ہے؟‘‘ صابر نے پوچھا۔
’’میں اگر بھاگ ہی جاؤں تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ یعنی مجھے کیا ہوگا؟‘‘
’’تم آزاد ہو جاؤگے بابا۔ آزاد۔۔۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ بابے نے پھر منہ کھول دیا، ’’آزاد ہو کر انسان کیا ہو جاتا ہے۔‘‘ سپاہی صابر نےعنایت کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھا کہ بھئی اس سوال کا جواب تو تم دے دو۔ اس پر عنایت منہ پر ہاتھ رکھے بغیر زور سے کھانسا اور بابے کے قریب چلا گیا، ’’ہونا کیا ہے۔۔۔ بس آزاد ہو جاتا ہے۔‘‘ صابر کو عنایت سے اتنی کند ذہنی کی امید نہ تھی۔ چنانچہ اسے کندھے سے پکڑ کر ایک طرف کیا اور بابے سے کہنے لگا، ’’آزادی کا بڑا سودا ہے بابا۔ بندہ مرغ چھولے کھا سکتا ہے، کون آئس کریماں کھا سکتا ہے، منڈوا دیکھ سکتا ہے اور پھر آزاد انسان۔۔۔ جہاں جی چاہے جائے۔۔۔‘‘
’’اور اگر نہ جانا چاہے تو؟‘‘ بابے نے پوچھا۔
’’تو نہ جائے۔‘‘
’’ایسا تو میں بندی خانے میں بھی کر سکتا ہوں۔‘‘ بابا مسکرانے لگا۔
’’اور صرف یہی نہیں بابا بگلوس، اس کے علاوہ بھی آزادی کے بڑے مزے ہیں۔۔۔ جسے چاہے ملے، تمہارے رشتے دار بھی تو ہوں گے؟‘‘ بابے نے پھر سر جھکا لیا۔
’’بہرحال بابا تم خدا کے لیے بھاگ جاؤ۔‘‘ ان دونوں نے لاچار ہو کر منت کی۔ بابے نے کندھے سکیڑے اور پھر اسی رفتار سے آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ عنایت اور صابر نہایت سنجیدہ چہرے بنا کر دوسری جانب دیکھنے لگے۔ تقریباً دس منٹ کے وقفے کے بعد جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو بابا بگلوس وہاں موجود نہ تھا۔ دونوں نے اطمینان کا ایک بہت ہی گہرا سانس لیا اور ہنسنے لگے۔ پھر عنایت بولا، ’’ویسے یار صابر! بابے کے بغیر بندی خانہ لگے گا سونا سونا۔۔۔ اب چلیں واپس؟ جا کر رپورٹ لکھوا دیں گے کہ بابا بگلوس بالآخر فرار ہوگیا ہے۔ ویسے بڑی سرکار اس خبر سے خوش ہی ہوگی۔‘‘
’’نہیں ابھی واپس نہیں جاتے گھومتے پھرتے ہیں۔ ایک دوگھنٹے کے بعد جائیں گے تاکہ رپورٹ میں کارروائی کے طور پر درج ہو جائے کہ ہم اسے تلاش بھی کرتے رہے ہیں۔‘‘
اس شام جب عنایت اور صابر اس تاریخی عمارت کی سیڑھیاں طے کر رہے تھے تو انہیں اپنے پیچھے ہف ہف کی سی آواز آئی، جیسے ایک تھکے ہوئے بوڑھے بل ڈاگ کے کھلے ہوئے منہ سے برآمد ہوتی ہے۔ بابا بگلوس سر جھکائے لڑکھڑاتی ٹانگوں کو بمشکل سنبھالتا ان کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ فرار کے اس عظیم منصوبے کی ناکامی کے بعد بڑی سرکار اور اہلکاروں نے بابے بگلوس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ روٹین کے تابع اپنی کوٹھری میں چھت کو اور شام کو صحن کے کونے میں بیٹھ کر آسمان کو گھورنے میں دن گزارنے لگاتا آنکہ اس سے صحن کا وہ کونہ چھن نہ گیا۔ کیونکہ وہاں بیسواں قدم تھا اور انیس قدموں کےآغاز سےکوڑا شرلاٹے بھرتا ہوا اس طور نہیں لہرایا جاسکتاتھا کہ ننگی پیٹھ کا گوشت باریک ذروں والے لوتھڑوں میں بدل جائے۔
اپنی پسندیدہ نشست سے محروم ہونےکے چند ہفتوں بعد بابا بگلوس ایک مرتبہ پھر چپ ہوگیا۔ کھانے کے لیے جو روٹی ملی وہ چڑیوں اور کووں کو کھلادی۔ رات کے وقت کوٹھری میں ٹہلتا رہا اور صبح سویرے عنایت کے گال سے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی داڑھی چھوئی، ’’مجھے باہر لے چلو۔‘‘
اس روز شہر میں شور تھا۔ شور تو پہلے بھی ہوتا تھا مگر آج زیادہ تھا اور زیادہ شور تبھی ہوتا ہے جب لوگ بھی زیادہ ہوں۔ وہ سب شہر کی ایک بڑی سڑک پر واقع جیل خانے کی جانب رواں تھے۔ بابا بگلوس حسب عادت سر نیہوڑائے چلتا رہا۔ کئی لوگ اس کے بوڑھے جسم کو دھکیلتے ہوئے آگے نکل رہے تھے، انہیں بے قراری نے ڈسا ہوا تھا۔ دو بجے کا وقت نشر ہوا تھا اور صرف تین گھنٹے باقی تھے۔ عنایت اور صابر بھی بابے کے ہمراہ میکانکی کھلونوں کی طرح چلتے رہے۔ وہ اس کی سالانہ یا ششماہی سیر کے لطف میں کم سے کم حائل ہونا چاہتے تھے۔ ہجوم زیادہ ہوتا چلا گیا۔ بالآخر بابے کو رکنا پڑا کہ اس کے آگے جسموں کی دیواریں تھیں۔ اس نے پہلی مرتبہ سر اٹھا کر عنایت سے پوچھا، ’’آج عید ہے؟‘‘
’’نہیں بابا۔‘‘ عنایت مسکرایا، ’’عید ہوتی تو صبح حلوہ نا ملتا بندی خانےمیں۔‘‘ وہ تینوں ہجوم کی دراڑوں میں سے پھنس پھنس کر نکلتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ آئس کریم والوں کو صدا دینے کی حاجت نہ تھی کہ ان کے ہاتھ ریڑھیوں کے سردخانوں میں ڈوبتے نکلتے تھک رہے تھے۔ مشروبات کی بوتلوں کے کریٹ ڈلیوری ٹرک سے اترتے اترتے فروخت ہو جاتا۔ پان سگریٹوں کے عارضی کھوکھے فٹ پاتھ پر سجتے سجتے خالی ہو رہے تھے۔ حلیم کی دیگیں ہجوم بھوکے باراتیوں کی طرح چٹ کر رہا تھا۔ کئی خاندان ہجوم سے ہٹ کردرختوں تلے پکنک منارہے تھے کہ وہ عقل مند تھے اور دوپہر کا کھانا ساتھ لے کر آئے تھے۔ آس پاس کی تمام دکانیں بند تھیں کہ دکاندار بھی آج موج میلے کے موڈ میں تھے۔ بھلا روز روز ایسا تماشہ دیکھنے کو کہاں ملتا ہے۔
سڑک پر میکانکی ٹریفک کی ممانعت کردی گئی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوسکیں۔ میدان تو خیر پہلے سے ہی انسانوں کے سروں سے بھرا ہوا تھا، لیکن اردگرد کی عمارتوں پر نظر ڈالنے سے شک ہوتا تھا کہ وہ اینٹوں کی بجائے جسموں سے بنی ہوئی ہیں۔ لاکھوں کا مجمع تھا کہ بقیہ شہر اس وقت ویران پڑا تھا۔ شیرخوار بچوں کی حوصلہ مند مائیں انہیں چادروں میں چھپا کر دودھ پلا رہی تھیں مگر ایڑیوں پر کھڑے ہونے سےاور ہجوم کے سروں کےاوپر دیکھنے کی جستجو میں یہ کام قدرے دشواری سے سرانجام پا رہا تھا۔ قریب ہی ایک مسمار شدہ عمارت کا ملبہ تھا اور اس کا ٹھیکے دار دو روپے فی کس کے حساب سے لوگوں کو ملبے کے ڈھیر پر کھڑا ہونے کے اجازت نامے دے رہا تھا۔ ڈھیر، سطح زمین سے ظاہر ہے بلند ہوتا ہےاور اس پر کھڑے ہوکر منظر صاف نظر آتا ہے۔ وہاں سے پچھلے دو دنوں میں تعمیر شدہ چبوترے اور ان پر نصب شدہ لکڑی کے چوکھٹے صاف نظر آ رہے تھے اور چوکھٹوں سے پھندے لٹک رہے تھے۔
جیسا کہ مہذب ملکوں میں دستور ہوتا ہے، پابندئی وقت کو ملحوظ رکھا گیا اور پورے دوبجے جیل کےاندر سے ایک جیپ نمودار ہوئی۔ قاتلوں کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹیا ں تھیں۔ انہیں چبوتروں پر کھڑا کردیا گیا۔ مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ وہ اپنے اپنے پھندوں کے سامنے کھڑے ہوں جوشاید گردن کی موٹائی کے حساب سے بنائے گئے تھے۔ مجمع مکمل طور پر خاموش ہوگیا۔ بابا بگلوس تو پہلے ہی خاموش تھا۔ پہلے قاتلوں کےچہروں پر نقاب ڈالے گئے۔ ان کے کندھے پکڑ کر انہیں پھندوں کے عین نیچے لے جایا گیا اور پھر انتہائی احترام سے یہ پھندے باری باری ان کی گردنوں کے گرد کس دیے گئے۔ ہجوم پر سناٹے کی چادر بچھی ہوئی تھی۔ یکدم وہ قاتل جو چندروز قبل انسان کہلاتے تھے، ان کے پاؤں تلے سے لکڑی کے تختوں کی زمین کھسک گئی اور وہ ہوا میں جھولنے لگے۔ سناٹےکی چادر اس لمحے تار تار ہوئی اور ہجوم کے ایک حصے نے پاکیزہ جذبات سے منور ہوکر نعرۂ تہذیب بلند کیا اور لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد، زندہ باد کے نعرے لگا کر ثواب میں شریک ہونے لگے۔
وہ خوشی سے پاگل ہو رہے تھے۔ بیشتر کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ پاکیزہ منظر دیکھ لیا۔ قاتلوں کے جسم پھڑکتے تھے اور پھر ڈھیلے پڑ جاتے تھے جیسے بکرے کا تازہ ذبح شدہ گوشت پھڑکتا ہے اور ساکت ہو جاتا ہے۔ جیسے کنڈی میں پھنسی مچھلی کی دم بار بار پھڑکتی ہے۔ ان کا سانس منقطع ہونے پر، گردن کے منکے ٹوٹنےسے اذیت کی جو لہریں فضا میں پھیل رہی تھیں وہ ہجوم کے لیے حیاتِ جاودانی کی ہوائیں تھیں، وہ انہیں سونگھ رہے تھے، اپنے بدن کے پوروں میں جذب کر رہے تھے اور مزید پرجوش ہو رہے تھے۔ وہ انصاف کا تماشا دیکھنے آئے تھے، ایک نئے نظام کے آغاز کےچشم دید گواہ بننے آئے تھے کہ اس عبرت انگیز منظر کے بعد ملک کے قاتلوں، ڈاکوؤں، بردہ فروشوں کی نسل ختم ہو جانی تھی۔
یہ وہ نمک تھا جو ان کیچووں پر ڈال دینے سے وہ ہمیشہ کے لیے تحلیل ہو جائیں گے۔ آج کے بعد جرم ایک ایسا لفظ ہوگا جو صرف کتابوں میں ملے گا (اور پھر کون نہیں جانتا کہ ایسا ہی ہوا) لوگ اسی لیے تو آئے تھے، آخری قاتل کو دیکھنے کے لیے۔ وہ عبرت حاصل کرنےکے ساتھ ساتھ قہقہوں کے درمیان نعرے بھی لگا رہے تھے اور قاتلوں کے، ملک کی تاریخ میں آخری قاتلوں کے جسم پھڑک رہے تھے۔ جوں جوں نیم مردہ گوشت کے لوتھڑے ٹھنڈے ہوتے گئے، ہجوم کی مایوسی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ جسم سدا یونہی پھڑپھڑاتے رہیں۔ وہ کل ناشتہ کرکے یہاں آئیں تو یہ جسم اسی طرح پھڑک رہے ہوں۔ پھر وہ اپنے دفتر یا کاروبار سے فارغ ہو کر شام کو ادھر سے گزریں تب بھی یہ بدن کسی اناڑی رقاصہ کی طرح ہل رہے ہوں۔ چھٹی کے روز بچوں کے ساتھ یہ سامنے والے باغ میں سیر کے لیے آئیں تو یہ لٹکتے ہوئے بکرے پھر بھی حرکت میں ہوں۔
آخر ان کے چہروں پر نقاب کیوں ڈالے گئے تھے۔ نقاب نہ ہوتے تو وہ ان کی زبانوں کو باہر لٹکتا دیکھ سکتے، پیاسے کتوں کی لمبی لٹکتی زبانوں کی طرح۔ ان کی آنکھیں ابل کر باہر آجاتیں۔ شاید ایک آدھ کا ڈھیلا ٹوٹ کر گر جاتا اور وہ اسے بچوں کے کھیلنے کے لیے اٹھالے جاتے۔ وہ آخری دموں پر ان کے ہونٹوں کی نیلی لرزش کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے گلوں میں سے نکلنے والی خرخراہٹ بھی سننا چاہتے تھے اور یہ ممکن ہو سکتا تھا، اگر ان کے قریب طاقتور مائیک فٹ کر دیے جاتے (بلکہ ان کے گلوں کے ساتھ باندھ دیے جاتے) اور پورے علاقے میں لاؤڈسپیکر لگا دیے جاتے۔ انتظامیہ کو اس قسم کی کوتاہی آئندہ نہیں کرنی چاہیے، مگر آئندہ کا کیا مطلب، آئندہ تو کوئی قاتل ہوگا ہی نہیں۔
قاتل پھندوں سے جھوم رہے تھے اور تماشائی خوشی سے پاگل ہو رہے تھے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا ورنہ وہ ان لٹکتے جسموں کے پاؤں دبوچ کر انہیں اور زور سے جھلاتے، خود جھولا جھولتے، ان کے ٹھنڈے پڑتے جسموں کی پینگوں کے ساتھ جھولنا جھلاؤری، اور اب تو ان جسموں نے تڑپنا چھوڑ دیا تھا۔ کتنے احمق لگ رہے تھے وہ، جیسے پارسل لٹک رہے ہوں۔ جیل کے ڈاکٹر نے گھڑی پر نظر ڈالی اور پارسلوں کو ٹٹول کر انہیں مردہ قرار دے دیا۔ ان کے جسم پھندوں سےعلیحدہ کر دیے گئے۔ تماشے کا کینوس عبرت کی تصویر سےخالی ہو گیا۔ ہجوم بڑبڑاتا ہوا بکھرنے لگا۔
’’یار جگہ بہت کم تھی۔ ٹھیک طرح سے دکھائی ہی نہیں دیا۔ سٹیڈیم میں انتظام کر لیتے۔ بے شک ٹکٹ لگا دیتے اور اس آمدنی سےکوئی فلاحی ا دارہ قائم کر دیا جاتا، ایک فلاحی مملکت قائم کرنے کا آسان ترین نسخہ۔‘‘ بیشتر لوگ موت کی تیز رفتاری کو کوس رہے تھے۔
’’تین چار منٹ کی پھڑپھڑاہٹ اور بس۔ اگر کرکٹ میچ ٹیلی ویژن پر دکھا دیا جا سکتا ہے تو ان قاتلوں کی موت کو ٹیلی کاسٹ کیوں نہیں کیا گیا۔‘‘
’’ہاں اس طرح کروڑوں لوگ عبرت حاصل کرتے۔ کم از کم نظارہ تو قریب سے ہوتا۔ ہم ان کے چہروں کو بِگ بِگ کلوز میں دیکھتے۔ بلکہ ان تین چارمنٹوں کو بھی اسی طرح ٹی وی پر دکھایا جانا چاہیے تھا جیسے کسی بیٹس مین کی وکٹ اڑنے پر اسی منظر کو دوبارہ سلو موشن میں دکھاتے ہیں۔‘‘
’’کم از کم چھ سات کیمرے ہوتے۔ ایک کیمرہ ان کی آنکھوں کا کلوز لیتا۔ دوسرا نتھنوں پر ہوتا، تیسرا ہونٹوں پر۔ چوتھا پورے جسم کا شاٹ لیتا اور سب سے اہم پانچواں جو صرف گردنوں کا بگ بگ کلوز لیتا اور یوں موشن میں آنکھیں کیا دھیرے دھیرے کھلتی چلی جاتیں اور شاید وہ ڈھیلا بھی باہر آ جاتا تو اس منظر کو فوراً دوبارہ دکھایا جاتا بہت ہی سلوموشن میں۔ نتھنوں پر جو کیمرہ ہوتا اس کی تصویر بھی خوب ہوتی۔ آہستہ آہستہ پھیلتے اور سکڑتے نتھنے۔ کہتے ہیں کہ موت سے پیشتر ناک سے خون بھی جاری ہو جاتا ہے۔ کم از کم یہ بھی حتمی طور پر معلوم ہو جاتا اور ہونٹ سلوموشن میں کس طرح دھیرے دھیرے پھڑپھڑاتے جیسے پھول کھل رہا ہو۔ آخری لمحوں میں وہ نیلے پڑ جاتے۔‘‘
’’ہاں مگر یار ٹیلی ویژن پر کیسے پتہ چلتا کہ ہونٹ نیلے پڑ رہے ہیں؟‘‘
’’اس کا حل تو خیر موجود ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں رنگین نشریات بھی تو ہوتی ہیں۔ بس رنگین کیمروں کو نصب کیا جاتا۔ یہ تمام پرلطف مناظر تو اپنی جگہ مگر اصل کلائمکس تو گردنوں والے سین پر ہوتا۔ ربڑ کی طرح آہستہ آہستہ لمبی ہوتی ہوئی گردنوں کا۔ ٹیلی ویژن پر آنے سے پہلے میک اپ بھی تو ضروری ہوتا ہے، تو وہ پھانسی کے چبوترے پر انہیں کھڑا کر کے کیا جا سکتا تھا۔ سنا ہے کہ میک اپ سے تصویر زیادہ صاف آتی ہے۔ خیر آئندہ سہی، مگر آئندہ تو۔۔۔‘‘
ہجوم بکھرتا گیا۔ پان سگریٹوں کے کھوکھے اٹھائے جانے لگے۔ آئس کریم کی ریڑھیاں شہر کی جانب سرکنے لگیں۔ حلیم والے اپنی بھری جیبوں پر ہاتھ رکھے خالی دیگیں ریڑھیوں پر لدوا رہے تھے۔ سامنے والی سڑک پھر سے ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔ زندگی نارمل ہوگئی۔۔۔ بابا بگلوس حسب عادت سارا وقت سر جھکائے کھڑا رہا۔ عنایت اور صابر پچھلے تین گھنٹوں سے ایک ہی مقام پر کھڑے کھڑے تھک چکے تھے۔ انہوں نے بابے کی جانب دیکھا جو گم سم کندھے ڈھیلے چھوڑے کھڑا تھا۔
’’بابا اب واپس چلیں؟‘‘ عنایت نےآرام سے پوچھا۔ بابے نے جیسے سنا ہی نہیں، اسی طرح کھڑا رہا۔ قدرے توقف کے بعد عنایت نےاس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’بابا بگلوس، اب واپس چلیں؟‘‘ بابے کے جھکے ہوئے چہرے سے لٹکتی داڑھی آنسوؤں سے نچڑ رہی تھی۔ اس نے سر اٹھایا نہیں، بس ہولے سے کہا، ’’نہیں، اب باہر اور اندر کا موسم ایک ہو چکا ہے۔‘‘