بات نکلی تو مری ذات پر آ کر ٹھہری
بات نکلی تو مری ذات پر آ کر ٹھہری
ذات سے نکلی تو اوقات پر آ کر ٹھہری
اپنے حق میں کبھی اثبات نہیں دے پایا
بے گناہی مری اس بات پر آ کر ٹھہری
جب بھی اٹھی کبھی چہروں کے لیے میری نظر
ہر دفعہ صرف حجابات پر آ کر ٹھہری
وہ جو اک بات کہ جس پر نہ کبھی میں ٹھہرا
سب کی ہر بات اسی بات پر آ کر ٹھہری
مختصر ہی رہی چاہت کی بغاوت مجھ میں
جب بھی سرکش ہوئی حالات پر آ کر ٹھہری
اس شناسائی کو کیسے میں شناسائی کہوں
ہر ملاقات ملاقات پر آ کر ٹھہری
کچھ ادھورے سے جوابات کی نادانی سے
میری ہستی ہی سوالات پر آ کر ٹھہری
ساری دنیا میں اجالوں کی منادی کر کے
آج پھر ایک سحر رات پر آ کر ٹھہری