بات مہندی سے لہو تک آ گئی

بات مہندی سے لہو تک آ گئی
گفتگو اب تم سے تو تک آ گئی


اب وہ شغل چاک دامانی کہاں
اب طبیعت تو رفو تک آ گئی


جان جائے یار ہے اب ڈر نہیں
بات اپنی آبرو تک آ گئی


آرزو تھی جس کو پانے کی ہمیں
جستجو اس آرزو تک آ گئی


بوٹے بوٹے سے نمایاں ہے بہار
ڈالی ڈالی رنگ و بو تک آ گئی


وصل کی شب اور اتنی مختصر
باتوں باتوں میں وضو تک آ گئی