بارود کی نالیں نہ جہازوں کی صدائیں
بارود کی نالیں نہ جہازوں کی صدائیں
سوچوں کی کمانوں پہ چڑھے تیر ڈرائیں
پھر صاحبو میں اور نگر کھوجنے نکلا
تب رنگ اڑاتے تھے زمیں اور ہوائیں
اب فیصلہ میں نے بھی کیا خود کو لٹا دوں
یاروں سے گزارش ہے مرا ہاتھ بٹائیں
میدان کی تہذیب لگے ایک ہیولیٰ
منظر کے لیے آنکھ تلاشے ہے گپھائیں
ہستی کا وہ پھیلاؤ حدیں ٹوٹ گئیں سب
کچھ سادہ طبع پوچھتے پھرتے ہیں دشائیں