بانجھ

چھتوں منڈیروں اور پیڑوں پر
ڈھلتی دھوپ کے اجلے کپڑے سوکھ رہے تھے
بادل سرخ سی جھالر والے بانکے بادل
ہنستے چہکتے پھولوں کا اک گلدستہ تھے
ہر شے کندن روپ میں ڈھل کر دمک رہی تھی
گالوں پر سونے کی ڈلگ اور آنکھوں میں اک تیز چمک تھی
سارا منظر کیف کے اک لمحے میں بے بس
لذت کی بانہوں میں جکڑا ہمک رہا تھا


اور پھر دو آنکھوں کو ملتی
کالے الجھے بالوں کو مکھ پر بکھرائے
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بڑھتی آئی
پہلی کھڑکی میں جب اس نے جھانکا
کھڑکی کی دہلیز پہ رکھا اک نازک گلدان چٹخ کر ٹوٹ گیا
الجھے بالوں پاگل آنکھوں والی نے تب آگے بڑھ کر
دوسری تیسری اور پھر گلی کی ہر کھڑکی میں جھانک کے دیکھا
گل دانوں کو ٹھوکر ماری
اک اک پھول کو روند دیا


تب وہ مجھ کو دیکھ کے لپکی
میری جانب غیظ بھری نظروں کا ریلا آیا
پھر جیسے کچھ شوخ کے ٹھٹھکی
سرخ گلاب کا پھول مرے ہاتھوں میں تھمایا
اور خود چکنے فرش پہ گر کر ٹوٹ گئی