باغی

رعد ہوں برق ہوں بے چین ہوں پارا ہوں میں
خود پرستار، خود آگاہ خود آرا ہوں میں
خرمن جور جلا دے وہ شرارا ہوں میں


میری فریاد پہ اہل دول انگشت بہ گوش
لا، تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے


سر پر نخوت ارباب زماں توڑوں گا
شور نالہ سے در ارض و سماں توڑوں گا
ظلم پرور روش اہل جہاں توڑوں گا
عشرت آباد امارت کا مکاں توڑوں گا


توڑ ڈالوں گا میں زنجیر اسیران قفس
دہر کو پنجۂ عسرت سے چھڑانے دے مجھے


برق بن کر بت ماضی کو گرانے دے مجھے
رسم کہنہ کو تہ خاک ملانے دے مجھے
تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے
خواب فردا کو بس اب حال بنانے دے مجھے


آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ
آگ ہوں آگ بس اب آگ لگانے دے مجھے