بادل جھک آئے تھے

بادل جھک آئے تھے
آموں کی ڈالی کے نیچے کچی مٹی سوئی ہوئی تھی
تیز ہوا سے پتے نیچے گرتے تھے
میں تنہا پیڑ کے پاس کھڑا تھا
سوچ رہا تھا رخصت ایسی ہوتی ہے
سب کچھ دل کی ہانڈی میں سے باہر آ کر
بے خوشبو کے پھول کی صورت ہو جاتا ہے
راہیں تکتی سپنے سوتی آنکھیں
آنسو بھر کر کالر پہ آ جاتی ہیں
مینہ کے پردوں میں سے دل کی مٹی
اپنے بوجھل سخنوں کے پانی میں دھل کر
پل کے پل انجان ہوا میں کھو جاتی ہے
شام کی بانہیں دستک بن کر آتی ہیں
اور خود ہی اپنے آپ ہوا کی لہروں میں کھو جاتی ہیں
کوئی نہیں ہے
دل نے اپنے سارے کاغذ تھام لیے ہیں
مینہ کی بوندیں جن پہ گرتی رہتی ہیں