باب قفس کھلنے کو کھلا ہے

باب قفس کھلنے کو کھلا ہے
باہر بھی تو دام بچھا ہے


اس کے سوا سب بھول گیا ہوں
جب سے وہ مرے دل میں بسا ہے


بڑھنے لگی ہے دل کی دھڑکن
شاید اس نے یاد کیا ہے


قافلے والو خیر مناؤ
رہزن ہی جب راہنما ہے


ساحل ساحل بھی کیا چلنا
موجوں پہ سفینہ ڈال دیا ہے


اپنی مرضی اپنی رضا کیا
سب سے بڑھ کر اس کی رضا ہے


آج کے انساں کی مت پوچھو
جیسے خدا سے بھی یہ بڑا ہے