بظاہر تو بدن بھر کا علاقہ گھیر رکھا ہے

بظاہر تو بدن بھر کا علاقہ گھیر رکھا ہے
مگر اندر سے ہم نے شہر سارا گھیر رکھا ہے


میں پسپا فوج دل کا آخری زخمی سپاہی ہوں
مگر اک عمر سے دشمن کو تنہا گھیر رکھا ہے


کبھی اس روشنی کی قید سے باہر بھی نکلو تم
ہجوم حسن نے سارہ سراپا گھیر رکھا ہے


مصیبت میں پڑا ہے ان دنوں میرا دل وحشی
سمجھ کر شہر والوں نے درندہ گھیر رکھا ہے


محبت کا خدا ہوں میں مگر ایسا خدا جس نے
بڑی مشکل سے اپنا ایک بندہ گھیر رکھا ہے


بہت پہلے کبھی پیدا ہوئے اور مر گئے تھے ہم
اسی ماضی نے مستقبل ہمارا گھیر رکھا ہے


کوئی ایمان والا اہل مسجد سے کہے جا کر
خدا کو کیوں انہوں نے کافرانہ گھیر رکھا ہے


چلو ہم فرحت احساسؔ اپنا مسجد سے چھڑا لائیں
خدا والوں نے اک کافر ہمارا گھیر رکھا ہے