بظاہر انجمن آرائیاں ہیں
بظاہر انجمن آرائیاں ہیں
وہی غم ہے وہی تنہائیاں ہیں
بلندی پر سنبھل کر پاؤں رکھنا
بہت گہری یہاں پر کھائیاں ہیں
کہاں گم ہو گیا بچپن ہمارا
وہی جھولے وہی امرائیاں ہیں
تری یادوں کی مدھم روشنی ہے
سکوت شام ہے تنہائیاں ہیں
ضمیرؔ ان سے کہو کہ لوٹ جائیں
یہاں پر جا بجا رسوائیاں ہیں