بہ فیض عشق حرف عین پر ڈٹے رہے ہیں ہم
بہ فیض عشق حرف عین پر ڈٹے رہے ہیں ہم
شروع سے شروع ٹھیک باندھتے رہے ہیں ہم
گلی میں کوئی تھا نہیں جو کہتا جاگتے رہو
اسی لیے تمام رات جاگتے رہے ہیں ہم
بجھے بجھے سے اس لیے عجیب لگ رہے ہو تم
بڑے قریب سے یہ آگ تاپتے رہے ہیں ہم
ہمیں ہے اور دسترس صنم گری کے کام پر
مجسموں کو پتھروں میں ڈھالتے رہے ہیں ہم
نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر
ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم