عظمت شہر انا شان بشر کی صورت
عظمت شہر انا شان بشر کی صورت
میرے شانوں پہ کوئی ہے مرے سر کی صورت
روز اترتا ہے سمندر میں سنہرا سورج
روز بن جاتی ہے اک دیدۂ تر کی صورت
دل جو صحرا کے سرابوں سے مرا اوب گیا
یاد آئی مجھے بھولے ہوئے گھر کی صورت
آ کے نزدیک مرے جلنے کا منظر دیکھو
دور سے شعلہ بھی لگتا ہے شرر کی صورت
آہٹیں قدموں کی مہلت نہیں دیتیں ورنہ
دیکھتے رہتے ہیں رستے بھی سفر کی صورت
کون سے عہد میں کھولی ہیں یہ آنکھیں ہم نے
عیب لگتے ہیں سخنؔ سب کے ہنر کی صورت