عظمت آدم

ہم تمہیں قتل ہی کر دیں گے مگر آج کی رات
مت کہو بیٹی بہو اور بہن
تم تو ہو ایک حسیں مشغلۂ عیش و نشاط
آج تک دیکھی نہ تھی جس کی جھلک
گورا گورا سا بھرا جسم گداز
جس نے ارمانوں میں اک آگ لگا رکھی ہے
سسکیاں بند کرو اور بلکنا چھوڑو
اپنے واویلا سے اب اور منغص نہ کرو
چھوڑ دو اپنے عزیزوں کا خیال
جن میں ناموس پہ کٹ مرنے کی ہمت ہی نہ تھی
بھاگ نکلے ہیں جو جینے کی تمنا لے کر
بھول جاؤ کہ کبھی ان سے بھی نسبت تھی تمہیں
سورماؤں سے ملو ان کی یہ عظمت سمجھو
محفل عیش کو ہاں اور منغض نہ کرو
یہ نوازش نہیں کچھ کم کہ چنا ہے ہم نے
تمہیں اس محفل عشرت کو سجانے کے لئے
دو گھڑی رنگ جمانے کے لئے
پونچھ لو آنسو پھرا لو آنکھیں
لاش بچے کی نہیں یہ تو ہے ذلت کا نشاں
کیسے انسانوں سے نسبت تھی تمہیں
ہم نے تو رحم سے خاموش کیا ہے اس کو
ورنہ ہم یہ بھی تو کر سکتے تھے
ہاتھ اور پیر قلم کر کے اسے تڑپاتے
ایک اک بوٹی اڑاتے تمہیں دکھ پہنچاتے
تم تو خوش بخت ہو آیا نہیں یوں طیش ہمیں
یہ تو منظور تھا خلل عیش ہمیں


جام پر جام اٹھاتی ہوئی دو ساتھ ابھی
چھوڑ دو اب یہ تڑپ اور پھڑک
اس طرح رکتے بھی ہیں بڑھتے ہوئے ہاتھ کبھی


آج کی رات فقط آج کی رات
ایک پل کا بھی تامل ہمیں منظور نہیں
ورنہ کچھ دور نہیں
اپنی سنگت کے لئے پاس بلا لیں تم کو
سامنے چھت سے جو لٹکی ہیں تمہاری بہنیں
چھاتیاں جن کی ہیں پیروں میں پڑی
اور جسموں میں کھبے ہیں بھالے
اپنے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے جھٹکنے کی سزا
یہ دہکتے ہوئے بھالے بھی ہیں انگارے بھی
اور رسی کی جگہ یہ ہیں تمہاری زلفیں


آج کی رات مگر آج رات
ایک پل کا بھی تامل ہمیں منظور نہیں
مسکراؤ بڑھو اور جام اٹھاؤ
شام غم کیسی ہے اب صبح مسرت بن جاؤ
ہم تمہیں قتل ہی کر دیں گے تمہاری خاطر
تاکہ نامرد ذلیل اور کمینے وہ عزیز
بھاگ نکلے ہیں جو جینے کی تمنا لے کر
دیکھ پائیں تو نہ یہ کہہ کے تمہیں شرمائیں
اپنے ہاں بیٹی بہو کوئی نہ تھی کوئی نہ تھی
ہاں جو اس نام کی لڑکی تھی وہ مر کھپ بھی گئی


اور تمہارے وہ عزیز
ان کی عزت بھی رہے آن بھی باقی رہ جائے
جن کے حصے میں نہ غیرت ہے نہ موت
ہم تمہیں قتل ہی کر دیں گے مگر آج کی رات