عذاب جتنے ہیں سارے ہماری خاطر ہیں
عذاب جتنے ہیں سارے ہماری خاطر ہیں
تمہارے پاس تو مال و متاع وافر ہیں
وہ جن کے پاؤں میں چل چل کے پڑ گئے چھالے
وہ راہ عشق نہیں بھوک کے مسافر ہیں
یہ شہہ کے ساتھ مصاحب بنے جو پھرتے ہیں
یہ کہہ رہے ہیں کہ سب لوگ تیری خاطر ہیں
لہو نچوڑ کے گھر ہم کو بھیجنے والو
ہمارے جسم کچلنے کو اب بھی حاضر ہیں
ندیمؔ آؤ چلیں ہم بھی کوچۂ قاتل
کہ راہ شوق میں ہم سے بہت مسافر ہیں