کیا ایمن الزواہری کی ہلاکت کے بعد القاعدہ ختم ہوجائے گی؟؟
بروز منگل 2 اگست 2022 امریکی صدر ٹی وی پر آئے اور اعلان کیا: ہفتے کے روز ان کے حکم پر افغانستان کے دارالحکومت کابل پر ڈرون حملہ کیاگیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حملے میں القاعدہ کے امیر ایمن الزوہری جاں بحق ہو گئے۔ مغرب سے لے کر مشرق تک، ہر اخبار کے لیے یہ ایک بڑی خبر تھی۔ کیونکہ امریکیوں کے مطابق ایمن الزوہری ہی وہ شخص تھا جس نے نائن الیون کے حملے کا منصوبہ تیار کیا اور دو سے تین ہزار کے درمیان افراد کی جان لے گیا۔ وہ روئے زمین پر اپنے بڑے دشمنوں میں انہیں گردانتے تھے۔ ایف بی آئی (FBI) کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق امریکی حکام نے ایمن الزواہری کی گرفتاری یا سزا میں معاونت پر پچیس ملین یعنی ڈھائی کروڑ ڈالر تک کا انعام رکھا ہوا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ صدر بائیڈن نے ایمن الزوہری کی حلاکت کی اطلاع وائٹ ہاؤس کی اسی بالکنی سے دی، جہاں سے 2011 میں صدر اوباما نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔ صدر بائیڈن کے اعلان پر امریکہ اور اس کے اتحادی تو ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ تاہم کابل حکومت جن کی خود مختاری کو چیلنج کرتے ہوئے یہ حملہ کیا گیا ہے، احتجاج کر رہی ہے۔ اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ افغان حکومت امریکہ کو کیا جواب دے گی، تاہم واقعے سے متعلق افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کے روز کابل کے رہائشی علاقے میں ڈرون حملہ کیا گیا اور ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ حملہ امریکہ نے کیا ہے۔ اس کا یہ اقدام عالمی قوانین اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ ذکر نہیں کیا کہ حملے کے نتیجے میں کون مارا گیا کون نہیں۔ اس کے برعکس امریکیوں کا اصرار ہے کہ حملے میں جاں بحق القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری ہی ہیں۔ اس بات پر امریکی طالبان پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ایمن الزواہری کو پناہ کیوں دی۔ صدر بائیڈن نے اس بات پر تلملاتے ہوئے یہ کہا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کا گڑھ نہیں بننے دیا جائے گا۔
اب دونوں ممالک کے دعووں میں تضاد ہے یہاں تک کہ اپنے اعلان میں صدر بائیڈن صاف سنے جا سکتے ہیں کہتے ہوئے کہ ان کے حکم پر حملہ ہفتے کے روز ہوا اور اس میں القاعدہ امیر ایمن الزواہری ہلاک ہوئے۔ تاہم ذبیح اللہ کا بیان جس کا اسکرین شاٹ ان کے آفیشل ٹوئیٹر ہینڈل سے لیا گیا ہے،میں ایمن الزواہری کا کوئی ذکر نہیں اور وہ اس حملے کو اتوار کے روز کہہ رہے ہیں۔ اب اصل ماجرہ کیا ہے، وللہ عالم۔
ایمن الزواہری کون تھے؟
متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق 1951 میں پیدا ہونے والے اکہتر سالہ ایمن الزواہری القاعدہ میں بن لادن کی زندگی میں ہی خاص اہمیت رکھتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے آنکھوں کے سرجن ڈاکٹر تھے۔ الجزیرہ پر شائع الزواہری کی سوانح کے مطابق وہ مصر کی جامع الازہر کے مفتی اعظم کے پوتے یا نواسے تھے۔ پہلی بار وہ میڈیا کی نگاہوں میں 1981 میں اس وقت آئے جب وہ مصری صدر انور سادات کے قتل کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔ انور سادات مصر کے وہی صدر ہیں جنہوں نے اسرائیل سے مصر کے سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ اپنے نجی کلینک میں اسلحہ چھپانے کے الزام میں انہوں نے تین سال کی قید بھگتی لیکن قتل میں ملوث ہونے کے الزامات سے وہ بری ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے قید کے دوران انہوں نے بہت سی اذیتوں کا سامنا کیا جس نے ان میں باغی پن کو اور پختہ کر دیا۔ سویت جہاد کے دور میں وہ ریڈ کراس کے ہمراہ مجاہدین کی مرہم پٹی کرتے رہے ، جس دوران مبینہ طور پر ان کی آشنائی بن لادن سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے 1993 میں وہ مصری تنظیم اسلامک جہاد کے سربراہ مقرر ہوئے اور نوے کا پورا عشرہ ان کا مصری حکومت کے خلاف کاروائیوں میں ہی گزرا۔ 2001 میں نوگیارہ کے بعد وہ القاعدہ کی صف بندی میں جتے رہے، جب بن لادن منظر عام سے روپوش ہو چکے تھے۔ نوگیارہ کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ ان کو قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایمن الزواہری ہی نے القاعدہ کی شاخوں کو سعودی عرب، عراق، شام سمیت دیگر ممالک تک پھیلایا۔ وہ اکثر و بیشتر ویڈیو پیغامات دیتے بھی نظر آتے تھے۔ 2011 میں بن لادن کی ہلاکت کے دو ماہ کے اندر ہی القاعدہ کا امیر ان کو مقرر کر دیا گیا۔
ایمن الزواہری کی مبینہ ہلاکت کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
اس وقت عالمی منظر پر ہلچل بہت تیز ہے۔ تائیوان میں امریکی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورے نے چین کو سیخ پا کر رکھا ہے۔ ادھر پاکستانی حکام بھی تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات میں مصروف تھے، جب یہ دھماکے دار خبر باہر آئی۔ خبر نے باہر آتے ہی ایسی گرد آڑائی کہ افواہیں، چہ میگوئیاں، اندازے، اٹکل پچو سارا منظر دھندلانے لگے۔ سوشل میڈیا پر کوئی ڈرون کے اڑنے کی جگہ تلاشتا نظر آیا، کوئی نئی محاذ آرائی کی پیش گوئیاں کرتا نظر آیا۔ کسی نے ادھر الزام دھرا کسی نے اُدھر۔
لیکن ہمیں ساری گرد میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین مذاکرات کی بیل منڈیر سے گرتی دکھتی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق موجودہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر نور ولی اور افغان وزیر داخلہ سراج حقانی بھی اس وقت کابل میں موجود تھے جب یہ حملہ ہوا۔ جو فوری رو پوش ہو گئے۔ اسی طرح اطلاعات ہیں کہ حملے سے کوئی ایک دو روز پہلے ہی پاکستان کی اہم شخصیات کابل سے ہو کر آئی ہیں۔ اگر ایمن الزواہری کی مخبری کے الزامات پاکستانی شخصیات کی طرف آئے تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ پھر آپ نے بلوچستان میں ہیلی کاپٹر کریش بھی دیکھ ہی لیا ہے۔ اب یہ سب تو ہمارے اٹکل پچو ہیں۔ حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانے۔ کہیں کوئی سرا ملتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔