عوامی ادب کے مسائل اور اردو کی ادبی روایت
ادب کی عوامی صنفیں اور روایتیں اردومعاشرے میں اپنے لئے کوئی مستقل جگہ کیوں نہیں بناسکیں؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے اور اتنا ہی افسوسناک بھی۔ اردو کی اشرافیت (Sophistication) اور مدنیت (Urbanity) نے برصغیر کے مجموعی کلچر میں جن عناصر اور جہتوں کا اضافہ کیا ہے، وہ بہت قیمتی ہیں۔ ہمارے علوم، افکار اور فنون کی دنیا ان اضافوں کے بغیر، وہ کچھ ہوہی نہیں سکتی تھی جیسی کہ آج ہے۔
اردو کی اشرافیت اور مدنیت صرف اس زبان کے بولنے والوں کی اجتماعی زندگی اور ذہنی وجدانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوئی، دوسری زبانوں نے بھی، کسی نہ کسی سطح پر، اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی لئے اردو زبان وادب کا سفر جن خطوط پر ہوا اور اس سفر میں جن منزلوں تک ہماری رسائی ہوئی، مجھے ان کی طرف سے کوئی بے کلی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اردوکی ادبی روایت اور اس روایت سے مالا مال ثقافتی ورثے کے بغیر ہم نہ تو اپنے تجربوں کا مفہوم متعین کر سکتے تھے، نہ اپنی شناخت قائم کر سکتے تھے۔ ہندوستان کی موسیقی، مصوری، رقص، فن تعمیر اور ہماری کئی علاقائی زبانوں کے ادب پر، اردو کی ثقافتی روایت اب تک سایہ فگن ہے۔ زبان جب بجائے خود ایک تہذیبی اور جمالیاتی حوالہ بن جاتی ہے تو اس کے اقتدار کا علاقہ اپنے آپ وسیع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے مجھے ان اصحاب سے کچھ کم وحشت نہیں ہوتی جو اردو کلچر کی اشرافیت اور مدنیت کے سلسلے میں اعتذار کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
لیکن مجھے اس واقعے کے اعتراف میں بھی کوئی جھجک نہیں کہ اردو کلچر نے اپنی اشرافیت اور مدنیت کی قیمت ضرورت سے بہت زیادہ چکائی ہے۔ ماناکہ اس کلچر نے جو رخ اپنایا، اس کی منطق گذشتہ ادوار کی تاریخ کے عمل میں موجود ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس منطق کے سامنے سپر ڈال دی اور اپنی کامرانیوں کے نشے میں یہ بات بھلا دی کہ ہم نے اپنا سفر حصول اور بے حصولی کی سطح پر ساتھ ساتھ طے کیا ہے۔ اپنی بے حصولی اور نارسائی کا حساب کریں تو خیال ہوتا ہے کہ وہ عناصر جو اردو کلچر کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں ان کے محدود تصور اور ان کی ناقص تعبیر ہی دراصل ہمارے المیے کا سبب بنی۔ ان اسباب کی نشاندہی مختصراً اس طرح کی جا سکتی ہے،
(۱) اشرافیت کے غلط تصور نے ایک طرح کی لسانی تنگ نظری اور صنوبری کو راہ دی ہے۔
(۲) مدنیت پر ضرورت سے زیادہ توجہ ہمارے تجربوں کی تحدید اور تخصیص پر منتج ہوئی۔
(۳) زبان کی صحت اور لغات کی پابندی پر غیرمتوازن اصرار کی وجہ سے ہماری روایت حکائی Oral لفظ کی طاقت سے محروم اور تحریری (written) لفظ کے تسلط کا شکار ہوتی گئی۔
(۴) اردو نے مشرق کی جن زبانوں کو اپنا بنیادی سرچشمہ بنایا، ان میں ارضیت کی لے کمزور تھی۔ اسی لئے ہماری ادبی روایت میں ذہنی اور تجریدی تجربوں سے شغف بہت نمایاں ہے۔
(۵) ہم نے اشیا سے زیادہ اشیا کے تصور سے سروکار رکھا۔ آج بھی ہمارے یہاں ایسے دانشور موجود ہیں جوعلامت سازی کو بت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں اور فکر کی تجسیم کے عمل کو ذہنی پس ماندگی کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ عمل قدیم انسان کی سادہ فکری کا ترجمان ہے۔
اصل میں ترقی پذیری اور پسماندگی کے تصورات کی نوعیت ادب اور فنون کی دنیا میں سماجی سطح پر ترقی اور پسماندگی کے تصورات کا ہوبہو عکس نہیں ہوتی۔ اظہار اور فکر میں بہ ظاہر مراجعت کا زاویہ، تمنا کا دوسرا قدم بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی شہادتیں ہمیں سب سے زیادہ مصوری میں اور تھیٹر میں ملتی ہیں جہاں پرانے اسالیب کو ایک نئی معنویت کی دریافت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ میں یہاں وضاحت کے لئے صرف دو مثالیں دوں گا۔ ایک تو رام چندرن کا معروف میورل بیانی اور ان کی تصویروں کی وہ سیریز جو ’’کٹھ پتلیوں کا رنگ منچ‘‘ کے نام سے سامنے آئی تھی۔ ان میں رام چندرن نے بنیادی رنگوں، مصوری کی لوک روایتوں اور قدیم انسان کی سادہ فکری کے استعاروں سے آج کی شخصی اور اجتماعی زندگی کے بعض مسائل کی ترجمانی کا کام لیا تھا۔
متھلا پینٹنگز کے ایک مبصر (رتنا دھرجھا) کا قول ہے کہ یہ تصویریں اپنی عنصری سادگی اور ہر قسم کے حجاب سے عاری بصیرت کی بنیاد پر آج کمرشلائزڈ آرٹ کے متعفن ماحول میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہیں۔ مدھوبنی یا متھلا پینٹنگز کی طرح رام چندرن کی بیانی اور ’’کٹھ پتلیوں کا رنگ منچ‘‘ دونوں میں کہانی کا عنصر نمایاں ہے۔ لوک روایت میں ا س عنصر کی حیثیت بنیادی ہے۔
دوسری مثال لوک ساہتیہ ہے۔ ناٹک کی عوامی روایت جاترا جو جدید کاری کے سیلاب میں پس پشت جا پڑی تھی اورجس کا حلقہ اثر بنگال کے گاؤں تک محدود رہ گیا تھا، پچھلے کچھ برسوں میں اس کا تماشا اہل شہر کے لئے بھی نئے سرے سے پرکشش بن گیا ہے۔ ا س صنف میں عام انسانی صورت حال سے نہایت شدید اور انہماک آمیز رشتہ چونکہ اساسی حثییت رکھتا ہے، اس لئے یہ صنف جدید کاری کے جھٹکوں کو جھیل گئی۔ سیاسی بیداری اور بصیرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ جاترا کے واسطے سے سیاسی مفہوم اور معنویت رکھنے والے کھیلوں سے دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ اسی طرح اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں شہروں کے تھیٹر گروپ شاید اپنے آزمودہ اسالیب کے حدود اور ان اسالیب کے مسدود مستقبل کی وجہ سے لوک روایتوں کی مدد سے نئے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ نوٹنکی کے اسلوب کی تجدید ہوئی ہے اور اس پرانے اسلوب میں نئے انسان کا قصہ سنایا جا رہا ہے۔
اردو کا حال اس معاملے میں سرے سے مختلف ہے۔ لوک روایتوں کی بحالیت تو دور رہی، ہمارے علم نے لوک عناصر سے آراستہ اسالیب اور اصناف کو بھی کبھی سنجیدہ تفہیم اور تجربے کا موضوع نہیں بننے دیا۔ دہے (دیہاتی مرثیے) پوربی بھاشا میں لکھے ہوئے سوز اورنوحے، لوک گیتوں کے اندازمیں منظوم سیاسی واردات اور عوامی تھیٹر سے ایک غیر شعوری لاتعلقی ہمارا عام شیوہ ہے۔ اس کے برعکس ہندی میں لوک گیتوں کے ذریعے سماجی، سیاسی، تہذیبی صورت حال اورواقعات پر تبصروں کی روش روزبروز مستحکم ہوتی جاتی ہے۔ اس موقع پر دوحقائق کی نشاندہی ضروری ہے۔
ایک تویہ کہ زندگی کی بنیادی سچائیوں میں یقین عوامی ادب کی فکری اساس ہے۔ دوسرے یہ کہ عوامی تجربے شخصی تجربو ں کی ضدنہیں ہوتے۔ ایسا نہیں کہ ان حقیقتوں کی طرف سے ہم یکسر بے خبر رہے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ہماری لسانی عادتو ں اور ادب کے اختصاصی تصور کا جبر ہمارے گلے کاطوق بن گیا۔ اس امر کی جانب سے ہم توجہ نہ دے سکے کہ زندہ زبانیں اپنے ادب کی لوک روایت اور اس کی امتیازی یا اشرافی روایت میں کوئی ٹکراؤ پیدا کئے بغیر دونوں کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتی ہیں۔
اردومیں دکنی ادب کا سرمایہ، پھر شمالی ہندوستان میں اردو کی ادبی روایت کے ابتدائی ادوار میں لوک عناصر کا آہنگ کبھی زبان کی اصلاح کے زور میں، کبھی دربار سے وابستہ مصنوعی ماحول اور رکھ رکھاؤ کے شور میں دبتا گیا۔ کبیر، نانک، جائسی، بلگرام کے سنت شاعر اور تو اور ہم نے نظیر اکبرآبادی تک کو ایک عرصے تک لائق اعتنا نہیں سمجھا کہ ان سب کے ہاں لوک عناصر کی لے بہت اونچی تھی۔ گاندھی جی کی ہدایت پر ہندی میں رام نریش ترپاٹھی اور اردو میں دیویندر ستیارتھی نے اپنی لوک روایتوں کی بازیافت کا سلسلہ ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ دیویندر ستیارتھی کی زنبیل میں لوک گیتوں کا ذخیرہ جس تیزی کے ساتھ بڑھتا گیا، اردو کے ساتھ ان کے روابط میں اسی تیزی کے ساتھ کمی آتی گئی۔
اس سلسلے میں ہمارا دھیان اس رمز پر بھی نہیں گیا کہ لوک ادب زبانوں کی حدبندی سے ماورا احساس اور فکر کی ایک ایسی کائنات ترتیب دیتا ہے، جہاں کبیر اور بلہے شاہ اور نانک دیو اور لل دید اور سلطان باہو اور عبداللطیف بھٹائی ایک دوسرے کے لئے لسانی اعتبار سے اجنبی نہیں رہ جاتے۔ انسان کے بنیادی تجربوں سے یگانگت اور مذہب و ملت، فرقے اور جماعت کی تفریق سے ماورا انسانی حالت کا ادراک ان سب کو ہمارے لئے تقریباً یکساں طور پر قابل فہم بنا دیتا ہے۔ میر صاحب کے اس بیان سے کہ،
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ میر صاحب نے یہا ں عوامی ادب کی اہمیت کا احساس جگایا ہے۔ عوامی ادب اور عوام سے وجدانی، ذہنی اور جذباتی قربت کا ا ظہار کرنے والا ادب دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔ عوام کے شاعر تو جوش صاحب بھی تھے۔ ایم ایف حسین بھی اپنے آپ کو عوام کا آرٹسٹ کہتے ہیں۔ ایک زمانے میں عوامی ادب کی ترقی پسند تعبیر نے وامق جونپوری کو اس گمان کی راہ دکھائی تھی کہ اردو میں عوامی شاعر سچ پوچھئے تو بس وہی ہیں۔ مگر اس نوع کی شاعری یا مصوری میں عوام کی حیثیت ایک معروض (OBJECT) یا شئے (COMMODITY) کی ہوتی ہے۔ مجھے تو کبھی کبھی یہ سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے کہ لوک کلاؤں اور ساہتیہ کی تجدید کا جو ہنگامہ ان دنوں برپا ہے وہ کہیں انہیں MUSEUM PIECE بناکر نہ رکھ دے۔
آدی باسیوں کی بنائی ہوئی چیزیں یا دیہی صناعوں کی تیار کردہ اشیا کا حال (PRESENT) اگر نودولتے طبقے کے ڈرائنگ رومز سے وابستہ ہے تو یقین جانئے کہ ان کا مستقبل صرف میوزیمس (MUSEUMS) میں محفوظ رہےگا۔ صارفیت لفظوں کے معنی بدل دیتی ہے کہ اب انقلاب فکر میں اور قوموں کی سیاسی اور سماجی زندگی میں نہیں بلکہ فیشن کی دنیا میں آتے ہیں۔ ایسی صورت میں لوک ساہتیہ یا لوک کلاؤں کا شہری معاشروں میں CRAZE بن جانا خطرے کا سگنل بھی ہے۔ کھلے آسمانوں میں اڑنے والے پرندے کا دم پنجرے میں گھٹنے لگتا ہے۔ جنگل میں اگنے والا پودا گملوں کے لئے نہیں ہوتا۔ (اندیشہ اس بات کا ہے کہ اشیا ہوں یا احساسات، ان کی طلب اگر فیشن کا حصہ بن جائے تو پھر وہ اپنی ندرت اور تازگی کھو بیٹھتے ہیں۔
کمار گندھروکا کہنا ہے کہ ہمارے شاستریہ راگوں کا سرچشمہ لوک دھنیں ہیں۔ دوسری طرف ابھی چند روز پہلے ہی استاد غلام مصطفے خاں نے ریڈیو پر ایک انٹرویو کے دوران یہ کہا کہ شاستریہ سنگیت اب جس مقام پر ہے وہاں اس میں اور لوک سنگیت میں نسبت تلاش کرنا مناسب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اصولی طور پر یہ دونوں بیانات حقیقت پر مبنی ہیں۔ مگر ان کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہیئت کی تبدیلی اشیا اور احساسات کی ماہیت کو بھی تبدیل کر دیتی ہے۔ عوامی ادب بھی اگر محض ہماری حسیت کے سرچشمے کی حیثیت پر رک جائے تو اس کا رول پورا نہ ہو سکےگا۔ ایسے شعر جو خواص پسند ہوں، چاہے ان کامکالمہ عوام سے ہی کیوں نہ ہو، عوامی ادب کا بدل نہیں ہوتے۔
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ادب کی صنفوں میں لوک عناصر کی شمولیت کو ہی کافی نہ سمجھیں۔ نظیراکبرآباد کی تقویم و تعبیر میں ہمارا رویہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ ٹھیک ہے علامہ تاجور نجیب آبادی نے اس صدی کے اوائل میں اردو والوں کو مشورہ دیا تھاکہ ان کے مشاہدات کا رخ دجلہ وفرات کی جگہ گنگا اور جمنا کی طرف ہونا چاہئے۔ ہم نے یہ بات مان لی، یہ بھی ٹھیک ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ یہ مقامیت کا شعور ہے، عوامی ادب کے مضمرات کا نہیں۔ لوک روایتوں کو اور ان سے جڑے ہوئے اسالیب کو مسخ DISTORT یا CORUPT کئے بغیر انہیں تخلیقی بصیرت اور شعور کے ایک نئے منطقے سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ انہیں زماں اور مکاں کے ایک نئے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے، اس طرح کہ ان روایتوں اور اسالیب کی صورتیں بگڑنے نہ پائیں اوریہ دائرہ بھی نہ ٹوٹے۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ سوچتے ہوں کہ لوک ادب کی روایت اور اسلوب جب آج کی ہیئت سے مربوط ہوں گے تو اس ہیئت کی شرطوں پر ہمیں اس روایت اور اسلوب کے کچھ عناصر کو قبول کرنا ہوگا، کچھ کو مسترد کرنا ہوگا۔ مگر یہ کام تو کم وبیش ہر اس شاعر اور ادیب نے کیا ہے جو گردوپیش کی دنیا کے سیاق میں اپنے تجربے کا مفہوم متعین کرنا چاہتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس مفہوم کی ترسیل کا رخ کس کی طرف ہے۔ اب میں چند ٹھوس حوالوں اور مثالوں کے ذریعے اپنی بات کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے لوک ساہتیہ کی جمالیات میں اب سے پہلے کئی ایسے انسانی تجربے ہیں جنہیں صرف اس لئے برتا نہیں گیا کہ یہ تجربے اس وقت یا تو وجود میں نہیں آئے تھے، یا پھر انہیں آج کی جیسی اہمیت نہیں ملی تھی۔ مثلا مہنگائی، قرض اور سود کا چکر، جہیز کی رسم یا BRIDE BURNING اب ہندی کے ایک نئے شاعر رمیش رنجک کا گیت سنئے،
مہنگائی نے جلم کری ڈارے بہنا
دام دال کے بڑھے، دام چینی کے چڑھے
دام ایک ایک چیز کے کرارے بہنا
مہنگائی نے جلم کری ڈارے بہنا
دھوتی جوڑ کی نئی، پونے تیس کی بھئی
موہے دیکھ گئے دن میں ستارے بہنا
اس گیت کی دھن بھی لوک ہے، حسیت کی سطح بھی۔ حسیت کی اس سطح پر آئے بغیر، زیادہ سے زیادہ وہی کیا جا سکتا ہے جو اردو ہندی کے بہت سے گیت کاروں نے کیا، یعنی یہ کہ عوامی روایت سے تشبیہیں اور اظہار کے سانچے اخذ کر لئے۔ اردو نظم کے نئے شاعروں میں یہ رویہ سب سے زیادہ طاقت کے ساتھ اخترالایمان، مجید امجد، زاہد ڈار اور عمیق حنفی کے یہاں سامنے آیا ہے۔ اس کے کچھ چھینٹے عظمت اللہ خاں اور میراجی کی نظموں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر لوک روایت کو آج کی زندگی کے پس منظر میں اک مؤثر حربے کے طورپر استعمال کرنے کی کوئی بڑی مثال ہمیں اردو میں نہیں ملتی۔ اس معاملے میں ہندی تھیٹر اور ہندی گیت، دونوں اردو سے بہت آگے ہیں۔ اردو والوں میں ایک حبیب تنویر کو چھوڑکر جنہوں نے چھتیس گڑھی روایت کو اپنے عہد کی حسیت سے ملانے کی چند بہت اچھی کوششیں کیں (مٹی کی گاڑی، چرن داس چور) ہمیں مطلع صاف نظر آتا ہے۔
اس کے برعکس ہندی میں تصویر مختلف ہے۔ اسے آپ آریائی ذہن کا کرشمہ کہیں یا حواس کی کائنات اور خیال کی کائنات کو بٹ کر ایک اکائی کے روپ میں سمجھنے اور دیکھنے کی عادت۔ بولیوں کے ادب نے جس لوک روایت کی تعمیر کی تھی، کھڑی بولی ہندی نے اس روایت سے اپنا تعلق ٹوٹنے نہیں دیا۔ بھارتیندو کے عہد سے نوٹنکی کی روایت جو چلی تو اب تک چلتی چلی آ رہی ہے۔ مثال کے طور پر سرویشور دیال سکسینہ (بکری) لکشمی نرائن لال (ایک ستیہ ہریش چندر) مدرا راکھشس (آتم سمرپن اوراعلیٰ افسر) شرد جوشی (ایک تھا گدھا عرف قصہ میاں داد) اصغر وجاہت (ویرگتی) اور اشوک چکردھر (چکن چمیلی) کے یہاں خود گاندھی واویوں کے ہاتھوں گاندھی واد کے قتل، سماجی قدروں کے زوال، سیاسی اخلاقیات اور بیوروکریسی اور کرپشن کے مسائل سے لے کر ریلوے ملازمین کی ہڑتال اور لکھنؤ میں چکن کا کام کرنے والی عورتوں کے استحصال تک۔
اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی لوک روایتوں کا سلسلہ موجودہ معاشرے کی زندہ سچائیوں سے آ ملا ہے۔ نکڑ ناٹک کی روایت بھی اسی سلسلے میں شامل ہے۔ اس صورت حال کے برخلاف اردو ڈرامے کی روایت میں آغا حشر اور امانت لکھنوی کی روایت کو ترقی دینا تو الگ رہا، اسے ایک نئی معاشرتی تعبیر کے خام مواد کی حیثیت سے باقی رکھنے کی جستجو بھی نہیں کی۔
اردو میں عوامی ادب کا راستہ جو لوک روایتوں کی تجدید اور نشاۃ ثانیہ کے دور میں بھی ہموار نہ ہو سکا، تو صرف اس لئے کہ ہم ان روایتوں کی طاقت، ان میں مخفی امکانات اور اجتماعی زندگی پر ان کے اثرات کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ہمارے احساسات پر اردو ثفاقت کی اشرافیت اور مدنیت کا بوجھ الگ۔۔۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ابلاغ COMMUNICATION کا مسئلہ ہیئت اور مواد کی اکائی کا مسئلہ، حکائی روایت اور بیانیہ اصناف پر تحریری اسالیب اور تجریدی اظہار کے تفوق کا مسئلہ۔ یہ مسئلے آج بھی ہمارے لئے بحث طلب ہیں اور نہیں ہم ابھی تک حل نہیں کر سکے۔
متوسط طبقے کی زندگی کے غیرمتناسب عمل دخل کی وجہ سے ہندی میں بھی کہانی اور ناول کی صنفیں لوک عناصر کو اس فراخ دلی کے ساتھ جذب نہیں کر سکیں جس کا اظہار ناٹکوں میں ہوا ہے۔ تاہم اس میلان کے واضح نشانات وجے دان دیتھا سے لے کر اصغر وجاہت اور عبدل بسم اللہ تک، جہاں تہاں موجود ہیں۔ نظم ہو یا فکشن، ہم جب تک کہانی کے عنصر اور موضوعاتی (TEHMATIC) صداقت کے عنصر سے بدکتے رہیں گے، لوک روایتوں سے اخذ واستفادے کا میلان ہماری حسیت کا حصہ نہیں بن سکےگا۔ لوک روایتوں نے ادب کی جمالیات کے جس نئے تصور کی تشکیل آج کی حقیقتوں کے فریم ورک میں کی ہے، ہمارے لئے یہ تصور تاحال اجنبی ہے۔
میرا خیال ہے کہ بنگالی یا ہندی کی لٹل میگزینس (LITTLE MAGAZINES) مثلاً پہل، اترگاتھا اور کیوں، کے خطوط ہمیں پرانی لوک روایت سے نکلی ہوئی اس نئی جمالیات کو اپنے نظام احساس کا جزو بنانے پر اور معاصر عہد کے آشوب اور اجتماعی واردات سے اس نئی جمالیات کے تعلق پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کی حد تک، عوامی ادب کے مسائل ہماری اپنی ’’بصیرت‘‘ نے پیدا کئے ہیں۔ ’’بصیرت‘‘ پتا نہیں کیوں، اپنی روایت، اپنی لسانی تربیت اور اپنے تمدن کا احاطہ کرنے والی مشینی جمالیات کے بھاری بوجھ کو اب تک اٹھائے پھرتی ہے۔
ہماری بصیرت پل بھر کو یہ نہیں سوچتی کہ اس بوجھ کو ہلکا کرنے کا ایک صاف اور سیدھا راستہ ہماری لوک روایتوں سے نکلتا ہے۔ زبان وبیان کی لیبارٹری کے حبس سے ہم آزاد ہو سکیں تو غالباً اس کا اندازہ بھی کر سکیں گے کہ آج کے انسانی تجربے اور صورت حال کی تعبیر و تفہیم کا ایک زاویہ ہماری لوک روایت سے جڑا ہوا ہے۔ میرے اپنے وجدان میں اس زاویے کو مراجعت کا نام دے کر مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ شاید میں ’’جدید انسان‘‘ کے افکار و احساسات کی دنیا میں بے حساب ترقیوں سے سہما ہوا آدمی ہوں۔