کاتتا ہوں رات بھر اپنے لہو کی دھار کو
کاتتا ہوں رات بھر اپنے لہو کی دھار کو کھینچتا ہوں اس طرح انکار سے اقرار کو بے قراری کچھ تو ہو وجہ تسلی کے لیے بھینچ کر رکھتا ہوں سینے سے فراق یار کو اپنی گستاخی پہ نادم ہوں مگر کیا خوب ہے دھوپ کی دیوار پر لکھنا شبیہ یار کو ایسے کٹتا ہے جگر ایسے لہو ہوتا ہے دل کیسے کیسے آزماتا ...