ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے
ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے یہ گھنا شہر کہ جنگل در و دیوار کا ہے رنگ پھر آج دگر برگ دل زار کا ہے شائبہ مجھ کو ہوا پر تری رفتار کا ہے اس پہ تہمت نہ دھرے میرے جنوں کی کوئی مجھ پہ تو سایہ مرے اپنے ہی اسرار کا ہے صرف یہ کہنا بہت ہے کہ وہ چپ چاپ سا تھا اس کو اندازہ مرے شیوۂ ...