Zubair Shifai

زبیر شفائی

  • 1944

زبیر شفائی کی غزل

    گھر نہیں بستی نہیں شور فغاں چاروں طرف ہے

    گھر نہیں بستی نہیں شور فغاں چاروں طرف ہے ایک چوتھائی زمیں پر آسماں چاروں طرف ہے دوڑتے ہیں رات دن تین آنکھ بارہ ہاتھ والے سرد سناٹے میں آواز سگاں چاروں طرف ہے لانچر راکٹ کلاشنکوف بارودی سرنگیں خون کا دریا پہاڑوں میں رواں چاروں طرف ہے جسم ہے تو سر نہیں سر ہے تو دست و پا نہیں ارض ...

    مزید پڑھیے

    فصل کی جلوہ گری دیکھتا ہوں

    فصل کی جلوہ گری دیکھتا ہوں شاخ کانٹوں سے بھری دیکھتا ہوں رقص گاہوں میں بڑے چرچے ہیں کون ہے لال پری دیکھتا ہوں چاند کو چاہئے ہم شکل اپنا رات بھر در بدری دیکھتا ہوں لو مچلتی ہے کھلی کھڑکی میں روز اک شمع دھری دیکھتا ہوں میرے بس میں ہے نہیں کیا چلنا جھنڈیاں لال ہری دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    رات کے پچھلے پہر اک سنسناہٹ سی ہوئی

    رات کے پچھلے پہر اک سنسناہٹ سی ہوئی اور پھر ایک اور پھر ایک اور آہٹ سی ہوئی دفعتاً زنجیر کھنکی یک بیک پٹ کھل گئے شمع کی لو میں اچانک تھرتھراہٹ سی ہوئی خستۂ دیوار و در یک بارگی ہلنے لگے طاق تھی ویران لیکن جگمگاہٹ سی ہوئی ایک پیکر سا دھوئیں کے بیچ لہرانے لگا نیم وا ہونٹوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا

    جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا وہ آئینہ ہے تو اپنی صفائی کیوں نہیں دیتا دکھائی دے رہے ہیں سامنے والوں کے ہلتے لب مگر وہ کہہ رہے ہیں کیا سنائی کیوں نہیں دیتا سمندر بھی تری آنکھوں میں صحرا کی طرح گم ہے یہاں وہ تنگئ جا کی دہائی کیوں نہیں دیتا جب اس نے توڑ دی زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    چاروں طرف ہیں خار و خس دشت میں گھر ہے باغ سا

    چاروں طرف ہیں خار و خس دشت میں گھر ہے باغ سا چوٹی پہ کوہسار کی جلتا ہے کیا چراغ سا آب رواں کی گونج سے شورش خاک و باد تک میں ہی ہوں نقش جاوداں میں ہی عدم سراغ سا صبح بھی ریشہ ریشہ ہے شام بھی ہے رفو طلب سینۂ مہتاب بھی ورنہ ہے دل داغ سا بحث ہوئی نہ تبصرہ شور اٹھا نہ چپ لگی دل کی بساط ...

    مزید پڑھیے

    طلسماتی فضا تخت سلیماں پر لئے جانا

    طلسماتی فضا تخت سلیماں پر لئے جانا مرے گھر میں اترتی شام کا منظر لئے جانا وہ اسباب شکست و فتح خود ہی جان جائے گا علم جب ہاتھ سے چھوٹے تو میرا سر لئے جانا گرج کے ساتھ بجلی بھی چمکتی ہے پہاڑوں میں مسافر ہے کہ طوفانی ہوا کو گھر لئے جانا کھلے جاتے ہیں جیسے دل کے سارے بند دروازے اب ...

    مزید پڑھیے

    قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا

    قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا چراغ بجھنے کے بعد اجالا کہاں سے آیا ندی میں وہ اور چاند ہیں ایک ساتھ روشن زمیں پر آسمان والا کہاں سے آیا یہ غنچہ غنچہ سیاہ بھونرے کی بوسہ خواہی سواد گلشن میں ہم نوالا کہاں سے آیا فضا کی آلودگی تھی پہلے ہی نیم قاتل یہ دل میں ایک اور داغ کالا ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا

    اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا ہمیشہ کے لیے یہ ہاتھ اب پتوار پر رکھنا وصالی موسموں کی بازیابی چاہنے والو بجائے شاخ گل دست طلب رخسار پر رکھنا سر تخلیق تن کب اختراعی دھن نکل آئے ذرا یہ ہونٹ تم بربط کے ٹوٹے تار پر رکھنا وبال دوش تھا یہ تم کسی کونے پہ لکھ دینا نمائش کے ...

    مزید پڑھیے

    سر کبھی گردن کبھی رخسار سہلاتا رہا

    سر کبھی گردن کبھی رخسار سہلاتا رہا ایک ہی جھونکا پلٹ کر بار بار آتا رہا پھول پر بیٹھی ہوئی تتلی اچانک اڑ گئی یہ خزانہ آخر اپنے ہاتھ سے جاتا رہا شمع کی لو پر ہوا نے ہونٹ اپنے رکھ دئے وجد میں آ کر دھواں تا دیر لہراتا رہا اس تمنا میں کہ اہل دل مجھے تجھ سا کہیں تیرا اک اک رنگ اک اک ...

    مزید پڑھیے

    تیز ہو جائیں ہوائیں تو بگولا ہو جاؤں

    تیز ہو جائیں ہوائیں تو بگولا ہو جاؤں گھومتے گھومتے ہم رقبۂ صحرا ہو جاؤں خود کلامی مری عادت نہیں مجبوری ہے یوں نہ مصروف رہوں میں تو اکیلا ہو جاؤں دوسرا پاؤں اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے اور میں فاتح ناہید و ثریا ہو جاؤں بند آنکھوں سے نہ کر مشق تصور دن رات کہ ہمیشہ کے لئے جان میں ...

    مزید پڑھیے