ساحل سے طبیعت گھبرائی موجوں میں سفینہ چھوڑ دیا
ساحل سے طبیعت گھبرائی موجوں میں سفینہ چھوڑ دیا جینے کی لگن میں ہم ہی نے جینے کا قرینہ چھوڑ دیا دامن میں لگائی آگ ادھر اب ان کے کرم کو کیا کہئے طوفان کا رخ تھا جس رخ پر کشتی کا ادھر رخ موڑ دیا تھے ساتھ اسیر فصل جنوں راہوں میں نہ جانے کیا گزری کیا کہئے کہ کس نے ساتھ دیا کیا کہئے کہ ...