Ziaul Mustafa Turk

ضیاء المصطفیٰ ترک

ضیاء المصطفیٰ ترک کی غزل

    کہیں یہ لمحۂ موجود واہمہ ہی نہ ہو

    کہیں یہ لمحۂ موجود واہمہ ہی نہ ہو جو ہو رہا ہے یہ سب پہلے ہو چکا ہی نہ ہو وہ صدمہ جس کے سبب میں ہوں سر بہ زانو ابھی عجب نہیں مری دانست میں ہوا ہی نہ ہو ترے غیاب میں جو کچھ کیا حکایت میں کہیں وہ گفتہ و نا گفتہ سے سوا ہی نہ ہو کلام کرتی ہوئی لہریں چپ نہ ہوں مرے بعد مرے لیے کہیں پانی ...

    مزید پڑھیے

    جس بھی لفظ پہ انگلیاں رکھ دے ساز کرے

    جس بھی لفظ پہ انگلیاں رکھ دے ساز کرے نظم کی مرضی کیسے بھی آغاز کرے کون لگائے قدغن خواب میں اشیا پر آئنہ ہاتھ ملائے عکس آواز کرے جب بچوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں مالک ان پھولوں کی عمر دراز کرے سوتے جاگتے کچھ بھی بولتا رہتا ہوں کون بھلا مجھ ایسے کو ہم راز کرے قدم قدم پر ان کی ...

    مزید پڑھیے

    کتنے ہی فیصلے کئے پر کہاں رک سکا ہوں میں

    کتنے ہی فیصلے کئے پر کہاں رک سکا ہوں میں آج بھی اپنے وقت پر گھر سے نکل پڑا ہوں میں ابر سے اور دھوپ سے رشتہ ہے ایک سا مرا آئنے اور چراغ کے بیچ کا فاصلہ ہوں میں تجھ کو چھوا تو دیر تک خود کو ہی ڈھونڈتا رہا اتنی سی دیر میں بھلا تجھ سے کہاں ملا ہوں میں خوشبو ترے وجود کی گھیرے ہوئے ہے ...

    مزید پڑھیے

    آئینے کے آخری اظہار میں

    آئینے کے آخری اظہار میں میں بھی ہوں شام ابد آثار میں دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو گئی روشنی بڑھتی ہوئی رفتار میں قطرہ قطرہ چھت سے ہی رسنے لگی دھوپ کا رستہ نہ تھا دیوار میں اپنی آنکھیں ہی میں بھول آیا کہیں رات اتنی بھیڑ تھی بازار میں بار بار آتا رہا ہے تیرا نام آئینہ ہوتی ہوئی گفتار ...

    مزید پڑھیے

    چراغ کشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے

    چراغ کشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے وہ دست غیب جو تبدیل کر رہا ہے مجھے یہ میرے مٹتے ہوئے لفظ جو دمک اٹھے ہیں ضرور وہ کہیں ترتیل کر رہا ہے مجھے میں جاگتے میں کہیں بن رہا ہوں از سر نو وہ اپنے خواب میں تشکیل کر رہا ہے مجھے حریم ناز اور اک عمر بعد میں لیکن یہ اختصار جو تفصیل کر رہا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2