ضیا ضمیر کی غزل

    ریزہ ریزہ ترے چہرے پہ بکھرتی ہوئی شام

    ریزہ ریزہ ترے چہرے پہ بکھرتی ہوئی شام قطرہ قطرہ مری پلکوں پہ اترتی ہوئی شام لمحہ لمحہ مرے ہاتھوں سے سرکتا ہوا دن اور آسیب زدہ دل میں اترتی ہوئی شام صبح کا خواب مگر خواب عجب جاں لیوا میرے پہلو میں سسکتی ہوئی مرتی ہوئی شام ساتھ ساحل پہ گزرتے ہوئے دیکھی تھی کبھی یاد ہے اب بھی ...

    مزید پڑھیے

    دور بھی جاتے ہوئے پاس بھی آتے ہوئے ہم

    دور بھی جاتے ہوئے پاس بھی آتے ہوئے ہم بھولتے بھولتے کچھ یاد دلاتے ہوئے ہم نیند کا اس کو نشہ ہم کو جگانے کی ہوس خواب میں آتے ہوئے نیند چراتے ہوئے ہم پہلے روتے ہوئے اپنی ہی نگہبانی میں اور بے ساختہ پھر خود کو ہنساتے ہوئے ہم پچھلی شب پونچھتے آنکھوں سے پرانے سبھی خواب اگلی شب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4