ضیا ضمیر کی غزل

    جینے میں آسانی رکھ

    جینے میں آسانی رکھ اک تصویر پرانی رکھ سامنے رکھ کر آئینہ چہرے پر حیرانی رکھ مخلص اگر زیادہ ہیں کوئی دشمن جانی رکھ کہنا سب کا مان مگر تھوڑی سی من مانی رکھ اس کو یوں مت مرنے دے اپنی آنکھ کا پانی رکھ میرے آگے سب چیزیں جانی اور پہچانی رکھ

    مزید پڑھیے

    بڑے سلیقے سے توڑا مرا یقین اس نے

    بڑے سلیقے سے توڑا مرا یقین اس نے کہ نام اپنے ہی کر لی ہے سب زمین اس نے تباہ شہر کو پہلے کیا پھر اس کے بعد ہمارے شہر میں بھیجے تماش بین اس نے نبھے گا کیسے تعلق سمجھ نہیں آتا انا کی ڈور رکھی ہے بہت مہین اس نے خدا بنا کے ہمیں پوجنے لگا تھا وہ بہت خراب کیا ہے ہمارا دین اس نے ذہین ...

    مزید پڑھیے

    جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے

    جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے ایسا اس عہد میں اک شخص ہمارا بھی ہے جاگتی آنکھوں نے دیکھے ہیں ترے خواب اے جاں اور نیندوں میں ترا نام پکارا بھی ہے وہ برا وقت کہ جب ساتھ نہ ہو سایہ بھی ہم نے ہنس ہنس کے کئی بار گزارا بھی ہے جس نے منجدھار میں چھوڑا اسے معلوم نہیں ڈوبنے والے کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ تو ہاتھوں کی لکیروں میں تھا گرداب کوئی

    یہ تو ہاتھوں کی لکیروں میں تھا گرداب کوئی اتنے سے پانی میں اگر ہو گیا غرقاب کوئی غم زیادہ ہیں بہت آنکھیں ہیں صحرا صحرا اب تو آ جائے یہاں اشکوں کا سیلاب کوئی عشق کا فیض ہے یہ تو جو چہک اٹھا ہے بے سبب اتنا بھی ہوتا نہیں شاداب کوئی ابر بن کر مجھے آغوش میں لے اور سمجھ کیسے صحرا کو ...

    مزید پڑھیے

    اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں

    اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں تھی کہاں ربط میں اس کے بھی کمی کوئی مگر میں اسے پیارا تھا پر جان سے پیارا تھا کہاں بے سبب ہی نہیں مرجھائے تھے جذبوں کے گلاب تو نے چھو کر غم ہستی کو نکھارا تھا کہاں بیچ منجھدار میں تھے اس لیے ہم پار ...

    مزید پڑھیے

    راحت وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر

    راحت وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر زندگی کیسے بسر ہوگی محبت کے بغیر اب کے یہ سوچ کے بیمار پڑے ہیں کہ ہمیں ٹھیک ہونا ہی نہیں تیری عیادت کے بغیر عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں تیرے کوچے میں چلے آئے اجازت کے بغیر ہم سے پوچھو تو کہ ہم کیسے ہیں اے ہم وطنو اپنے یاروں کے بنا اپنی محبت ...

    مزید پڑھیے

    درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے

    درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے کس کی آمد ہے ضیاؔ کون نظر آ گیا ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا پیروں نے اک سفر ختم پہ ہے اگلا سفر آ گیا ہے لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے درد بھی سہنا تبسم بھی لبوں پر رکھنا مرحبا عشق ہمیں بھی یہ ہنر آ گیا ...

    مزید پڑھیے

    اس کی خواہش پہ نئے شعر برابر کہنا

    اس کی خواہش پہ نئے شعر برابر کہنا اور پھر سن کے انہیں اس کا مکرر کہنا خشک آنکھیں لئے ہنستا ہوا دیکھو جس کو اس کو صحرا نہیں کہہ دینا سمندر کہنا کیا عجب ہے کہ ہو بیٹے کی فقط ہار پہ ہار اور ماں کا اسے ہر بار سکندر کہنا یہ تو ہم ہیں بڑے دل والے جو کہہ دیتے ہیں ورنہ آسان نہیں اپنے سے ...

    مزید پڑھیے

    تک رہا ہے تو آسمان میں کیا

    تک رہا ہے تو آسمان میں کیا ہے ابھی تک کسی اڑان میں کیا وہ جو اک تجھ کو جاں سے پیارا تھا اب بھی آتا ہے تیرے دھیان میں کیا کیا نہیں ہوگی پھر مری تکمیل کوئی تجھ سا نہیں جہان میں کیا ہم تو تیری کہانی لکھ آئے تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا ہو ہی جاتے ہیں جب جدا دونوں پھر تعلق ہے جسم و ...

    مزید پڑھیے

    جس طرح پیاسا کوئی آب رواں تک پہنچے

    جس طرح پیاسا کوئی آب رواں تک پہنچے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس کے مکاں تک پہنچے شرط اتنی تھی محبت میں بدن تک پہنچو ہم جنوں پیشہ مگر یار کی جاں تک پہنچے تیری چوکھٹ پہ پلٹ آئے ترے دیوانے بے اماں یعنی اسی جائے اماں تک پہنچے چل پڑے ہیں نئی تہذیب کے رستے ہم لوگ پانی کب دیکھیے خطرے کے نشاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4