ضیا ضمیر کی غزل

    درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

    درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں ہم کو بس تیری ہی چوکھٹ پہ پڑے رہنا ہے تجھ سے بچھڑیں نہ کسی اور ٹھکانے جائیں اپنی دیوار انا آپ ہی کر کے مسمار اپنے روٹھوں کو چلو آج منانے جائیں جانے کیا راز چھپا ہے تری سالاری میں تو جہاں جائے ترے پیچھے زمانے ...

    مزید پڑھیے

    سفر مجھ پر عجب برپا رہی ہے

    سفر مجھ پر عجب برپا رہی ہے مری وحشت مجھے چونکا رہی ہے کہیں سے آ رہی ہے تیری خوشبو اداسی دور ہوتی جا رہی ہے ابھی تک خود نہیں سمجھی ہے جس کو مجھے وہ بات بھی سمجھا رہی ہے امیروں کے بچے ٹکڑوں کو چن کر غریبی بھوک کو بہلا رہی ہے مبارک شام کی آمد مبارک کسی کی یاد لے کر آ رہی ہے گئی شب ...

    مزید پڑھیے

    بہت جمود ہے طاری کوئی خیال ذرا

    بہت جمود ہے طاری کوئی خیال ذرا نیا سا لفظ مری خاک پر اچھال ذرا وہ تو ہی ہے کہ میں بکھرا ہوں سامنے جس کے تو کم نصیب نہیں ہے مجھے سنبھال ذرا بچھڑتے وقت یہ خواہش کہاں تھی ناجائز اسے بھی ہوتا ہماری طرح ملال ذرا نہیں جو مانتا خود کو کہ بے مثال ہے تو تو اپنے جیسی دکھا دے کوئی مثال ...

    مزید پڑھیے

    اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے

    اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے اک غم کا سمندر ہے جو گھٹتا ہی نہیں ہے کیا تیرا بدن جان گیا تیری انا کو پہلے کی طرح مجھ سے لپٹتا ہی نہیں ہے اسکولی کتابو ذرا فرصت اسے دے دو بچہ مرا تتلی پہ جھپٹتا ہی نہیں ہے کیا کیا نہیں کرتا ہے زمانہ اسے بد دل دل ہے کہ تری اور سے ہٹتا ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو رشتوں کی عجب سی ذمہ داری سر پہ رکھی ہے

    جو رشتوں کی عجب سی ذمہ داری سر پہ رکھی ہے تو اب دستار جیسی چیز بھی ٹھوکر پہ رکھی ہے تری یادوں کی پائل سی کھنکتی ہے مرے گھر میں مرے کمرے کے اندر گونجتی ہے در پہ رکھی ہے تمہارے جسم نے پہلو بہ پہلو جس کو لکھا تھا وہ سلوٹ جیوں کی تیوں اب بھی مرے بستر پہ رکھی ہے تمہارے لمس کی خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    عشق جب تجھ سے ہوا ذہن کے جگنو جاگے

    عشق جب تجھ سے ہوا ذہن کے جگنو جاگے لفظ پیکر میں ڈھلے سوچ کے پہلو جاگے دیکھیے کھلتا ہے اب کون سے احساس کا پھول دیکھیے روح میں اب کون سی خوشبو جاگے جانے کب میرے تھکے جسم کی جاگے قسمت جانے کب یار ترے لمس کا جادو جاگے جاگتے تنہا یہی سوچتا رہتا ہوں میں رتجگا کیسا ہو گر ساتھ مرے تو ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہنستے بھی سوگوار ہیں ہم

    ہنستے ہنستے بھی سوگوار ہیں ہم زندگی کس کے قرض دار ہیں ہم روح پر جسم کا لبادہ ہے اس لئے ہی تو سایہ دار ہیں ہم اس نے دیکھا کچھ اس ادا سے ہمیں ہم یہ سمجھے کہ شاہکار ہیں ہم ہم کو اتنا گرا پڑا نہ سمجھ اے زمانے کسی کا پیار ہیں ہم آج تک یہ سمجھ نہیں آیا جیت ہیں کس کی کس کی ہار ہیں ہم ہو ...

    مزید پڑھیے

    خاک تھے کہکشاں کے تھے ہی نہیں

    خاک تھے کہکشاں کے تھے ہی نہیں ہم کسی آسماں کے تھے ہی نہیں اس نے ایسا کیا نظر انداز جیسے ہم داستاں کے تھے ہی نہیں تم نے جو بھی سوال ہم سے کئے وہ سوال امتحاں کے تھے ہی نہیں چھوڑ کر جو چلے گئے اس کو ہاں وہ ہندوستاں کے تھے ہی نہیں اتنی جلدی جو بھر گئے ہیں زخم جسم کے تھے یہ جاں کے تھے ...

    مزید پڑھیے

    مشکلیں کتنی ہیں پوشیدہ اس آسانی میں

    مشکلیں کتنی ہیں پوشیدہ اس آسانی میں سونا پڑتا ہے ہمیں خواب کی نگرانی میں خود سے ملنا ہو تو فرصت کے پلوں میں ملنا عکس دکھتے ہی نہیں بہتے ہوئے پانی میں بعد مدت کے ملا تھا وہ مگر تھا کیسا دیکھنا بھول گیا اس کو میں حیرانی میں تیری یاد آئی تو حیرت بھی نہیں ہے مجھ کو یاد اپنا ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے جنون عشق میں کفر ذرا نہیں کیا

    ہم نے جنون عشق میں کفر ذرا نہیں کیا اس سے محبتیں تو کیں اس کو خدا نہیں کیا عمر ہوئی کہ دیکھ کر نیند اچٹ گئی تھی ہاں آنکھ نے پھر کبھی رقم خواب نیا نہیں کیا تجھ سے کہا تھا خوشبوئیں اس کے بدن کی لائیو میرا یہ کام آج تک تو نے سبا نہیں کیا ہم سا بھی اس جہان میں ہوگا نہ کوئی یرغمال قید ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4