عدت
صدر صاحب چار ماہ دو روز کی رخصت میں ہیں اور بظاہر وہ پشاور میں ابھی فرصت میں ہیں ان کو لیلیٰ کی صدارت کی جدائی کا ہے غم گھر سے باہر کیسے نکلیں وہ ابھی عدت میں ہیں
صدر صاحب چار ماہ دو روز کی رخصت میں ہیں اور بظاہر وہ پشاور میں ابھی فرصت میں ہیں ان کو لیلیٰ کی صدارت کی جدائی کا ہے غم گھر سے باہر کیسے نکلیں وہ ابھی عدت میں ہیں
معشوق جو ٹھگنا ہے تو عاشق بھی ہے ناٹا اس کا کوئی نقصان نہ اس کو کوئی گھاٹا تیری تو نوازش ہے کہ تو آ گیا لیکن اے دوست مرے گھر میں نہ چاول ہے نہ آٹا لڈن تو ہنی مون منانے گئے لندن چل ہم بھی کلفٹن پہ کریں سیر سپاٹا تم نے تو کہا تھا کہ چلو ڈوب مریں ہم اب ساحل دریا پہ کھڑے کرتے ہو ٹا ...
موچ آئی پیر میں کچھ دن کریں آرام وہ آج کے اخبار میں اعلان جاری ہو گیا اک بڑے اخبار نے چھاپی خبر یہ اس طرح ایک قومی رہنما کا پیر بھاری ہو گیا
سفر ہو ریل گاڑی کا تو چھکے چھوٹ جاتے ہیں پسینے کے گھڑے گویا سروں پر پھوٹ جاتے ہیں ٹکٹ لینا جو پہلا کام ہے اور سخت مشکل ہے سمجھ لیجے کہ یہ اپنے سفر کی پہلی منزل ہے ریزرویشن کرانا ہے تو پہلے اک قلی پکڑیں خوشامد سے منا لیجے قلی صاحب اگر اکڑیں بکنگ آفس کا بابو آپ کی آسان کر دے گا وہ ...
میں تنہا ہوں مجھے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو تنخواہ لے مجھ سے فقط دو وقت کا کھانا وہ صبح و شام دے گا حاضری دربار داتا پر وہاں سے لائے گا کھانا اپن دونوں کا روزانہ
کس طرح اس سے جان چھڑاؤں میں کیا کروں مجھ کو ہے یہ خیال ہراساں کیے ہوئے جانے کا نام ہی نہیں لیتا وہ نیک بخت ''مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے''
قلم دو چار ایسے ہی لگا لیتا ہوں جیبوں میں مرے احباب میں اس سے مری توقیر بڑھتی ہے کبھی لکھنے لکھانے کی تو نوبت ہی نہیں آتی میں ناڑا ڈال لیتا ہوں ضرورت جب بھی پڑتی ہے
وہ جلا کر کشتیاں ویزا تو کب کا لے چکے آنے کو تیار بیٹھے ہیں جو فہرستوں میں ہیں آ کے ٹک جانا یہاں مشکل نہیں بالکل نہیں کار بنگلہ اور بیوی بھی یہاں قسطوں میں ہیں
کوچۂ یار میں میں نے جو جبیں سائی کی اس کے ابا نے مری خوب پذیرائی کی میں تو سمجھا تھا کہ وہ شخص مسیحا ہوگا اس نے پر صرف مری تارہ مسیحائی کی اس کے گھر پہ ہی رقیبوں سے ملاقات ہوئی کیا سناؤں میں کہانی تجھے پسپائی کی میرے تایا سے وہ ہیں عمر میں دس سال بڑی گھر کے ہر فرد پہ دہشت ہے مری ...
ڈاکٹر سے میں علاج دل کرانے جب گیا مشورہ اس نے دیا تو شعر کہنا چھوڑ دے اور بلڈ پریشر کے بارے میں جو پوچھا تو کہا اے مریض جاں بلب اخبار پڑھنا چھوڑ دے