Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی نظم

    ہرجائی

    شام لوٹ آئی گھنی تاریکی اب نہ آئے گی خبر راہی کی جاگی تاروں کی ہر اک راہ گزار دور اڑتا نظر آتا ہے غبار آپ کی باتیں ہیں کتنی پھیکی کس کی راہ تکتی ہو کون آنے لگا کیا تمہیں بھی کوئی بہکانے لگا ان کی آنکھیں ہیں کہ خوابوں کا فسوں ان کی باتیں ہیں کہ الفت کا جنوں آپ کو کاہے کا غم کھانے ...

    مزید پڑھیے

    وقت کاتب ہے

    وقت کاتب ہے تو مسطر چہرے جب سے تحریر شناسی مری تقدیر ہوئی وہ معانی پس الفاظ نظر آتے ہیں جن کو پہچان کے دل ڈرتا ہے اور ہر چہرے سے ایک ہی چہرہ ابھر آتا ہے جو مرا چہرہ ہے اور امروز کا آئینہ یہ کہتا ہے کہ دیکھ آدمی زادے تری عمر کی شام آ پہنچی سر پہ اب راکھ اتر آئی ہے برف کنپٹیوں ...

    مزید پڑھیے

    راہرو

    سبک پا ہوا کی طرح میں گزرتا رہا سبک پا ہوا کی کہیں کوئی منزل نہیں ہوا بیکراں وقت کی موج ازل سے ترستی رہی کہیں پل کو سستا سکے سو سکے مگر دور حد نظر اک دھندلکا تھا اب بھی دھندلکا ہے ساحل نہیں مجھے زندگی اک خلش بن کے ڈستی رہی کبھی ایسی منزل نہ آئی جہاں کوئی تازہ نفس ہو سکے ہر اک دھندلی ...

    مزید پڑھیے

    امکان

    مرے لفظ میرے لہو کی لو مرے دل کی لے جسے نور نے کی تلاش ہے مرے اشک میرے وہ حرف ہیں جو مرے لبوں پہ نہ آ سکے میں اگر کہوں بھی تو کیا کہوں کہ ہنوز میری زباں میں ہے وہی نا کشودہ گرہ کہ تھی تو سنے تو ابر بھی نغمہ ہے تو سنے تو موج ہوا بھی راگ کی تان ہے تو سنے تو پات بھی پھول بھی کسی گپت گیت ...

    مزید پڑھیے

    ہم

    1 بچھی ہوئی ہے بساط کب سے زمانہ شاطر ہے اور ہم اس بساط کے زشت و خوب خانوں میں دست نادیدہ کے اشاروں پہ چل رہے ہیں بچھی ہوئی ہے بساط ازل سے بچھی ہوئی ہے بساط جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا ہے بساط ایسا خلا ہے جو وسعت تصور سے ماورا ہے کرشمۂ کائنات کیا ہے بساط پر آتے جاتے مہروں کا سلسلہ ...

    مزید پڑھیے

    طلوع

    کسے یقیں تھا کہ پلٹے گی رات کی کایا کٹی تو رات مگر ایک ایک پل گن گن افق پہ آئی بھی تھی سرخیٔ سحر لیکن سحر کے ساتھ ہی ابر سیاہ بھی آیا سحر کے ساتھ ہی حد نگاہ تک چھایا یہ کیا غضب ہے کہ اب تیرہ تر ہے رات سے دن زمانہ شوخ شعاعو اداس ہے تم بن بس اک جھلک کہ اٹھے سر سے یہ گھنا سایا یہ ڈر بھی ہے ...

    مزید پڑھیے

    تابہ کے

    لفظ اور ہونٹ کے مابین کہیں سانس الجھ جاتی ہے تیرے آنگن کے کسی گوشۂ نادیدہ میں منحنی ہاتھوں سے دیوار پکڑتی ہوئی امید کی بیل اپنے ہی غم سے دہکتی رہی دم دم پیہم اپنے ہی نم سے مہکتی رہی موسم موسم لفظ ابھرتے رہے رک رک کے سر شاخ نیاز بیل کے پھول کبھی رنگ کبھی خوشبو سے آن کی آن ترے لمس ...

    مزید پڑھیے

    دروغ گو راوی

    دل دروغ گو راوی فاصلے بلا کے ہیں پیرہن کے پیرائے جسم کی پرستش میں جستجو محبت کی خود فریب خواہش میں دل دروغ گو راوی فاصلے بلا کے ہیں پیکر وفا کس نے جسم سے تراشا ہے زلف و عارض و لب میں پیرا کا تماشا ہے داغ دل کا سرمایہ کس نے کس کو اپنایا

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3