Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی نظم

    تیرگی

    یہ رات دن کی اداسی یہ بے حسی یہ تھکن حیات ہے کہ تہ برف نا دمیدہ چمن وہ سبزہ میری نظر سے مرے جہان سے دور مگر کہیں وہ چمن وہ حیات ہے تو سہی یہ دل میں ایک کسک سی مری زبان سے دور زباں سے دور سہی کوئی بات ہے تو سہی چمن کو برف کی تہ میں نمو کی خواہش ہے حیات کو تپش آرزو کی خواہش ہے

    مزید پڑھیے

    سنبھالا

    تنہائی شکستہ پر سمیٹے آکاش کی وسعتوں پہ حیراں حسرت سے خلا میں تک رہی ہے یادوں کے سلگتے ابر پارے افسردہ دھوئیں میں ڈھل چکے ہیں پہنائے خیال کے دھندلکے اب تیرہ و تار ہو گئے ہیں آنسو بھی نہیں کہ رو سکوں میں یہ موت ہے زندگی نہیں ہے اب آئے کوئی مجھے اٹھا کر اس اونچے پہاڑ سے پٹک دے ہر ...

    مزید پڑھیے

    ٹائپسٹ

    دن ڈھلا جاتا ہے ڈھل جائے گا کھو جائے گا ریگ اٹی درز سے در آئی ہے اک زرد کرن دیکھ کر میز کو دیوار کو الماری کو فائلوں، کاغذوں، بکھری ہوئی تحریروں کو پھر اسی درز سے گھبرا کے نکل جائے گی اور باہر وہ بھلی دھوپ، سنہری کرنیں جو کبھی ابر کے آغوش میں چھپ جاتی ہیں کبھی پیڑوں کے خنک سایوں ...

    مزید پڑھیے

    تسلسل

    بزم خواہش کے نو واردو تم نہیں جانتے کیسے آہستہ آہستہ جسموں کے اندر رگوں تک پہنچتے ہیں پت جھڑ کے ہاتھ کیسے سرما کی شام ڈھانپ لیتی ہے کہرے کی چادر میں منظر تمام کیسے گزری ہوئی زندگی دستکیں دیتی رہتی ہے دل پر مگر جب پکاریں تو رم خوردہ رویا کے مانند دوری کی سرحد کے اس پار آتی ...

    مزید پڑھیے

    بڑا شہر

    کراچی کسی دیو قد کیکڑے کی طرح سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے نسیں اس کی فولاد و آہن بدن ریت سیمنٹ پتھر بسیں ٹیکسیاں کاریں رکشا رگوں میں لہو کی بجائے رواں جسم پر جا بجا داغ دلدل نما جہاں عنکبوت اپنے تاروں سے بنتے ہیں بنکوں کے جال کہ ان میں شمال اور مشرق سے آئے ہوئے اشتہا اور ...

    مزید پڑھیے

    ابو الہول

    جہان ریگ کے خواب گراں سے آج تو جاگ ہزاروں قافلے آتے رہے گزرتے رہے کوئی جگا نہ سکا تجھ کو تجھ سے کون کہے وہ زیست موت ہے جس میں کوئی لگن ہو نہ لاگ تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ جو تیرے دیدۂ سنگیں سے درد بن کے بہے یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے یوں ہی سلگتی رہے تیرے دل میں ...

    مزید پڑھیے

    خود فریب

    نہیں نہیں مجھے نور سحر قبول نہیں کوئی مجھے وہ مری تیرگی عطا کر دے کہ میں نے جس کے سہارے بنے تھے خواب پہ خواب ہزار رنگ مرے مو قلم میں تھے جن سے بنا بنا کے بت آرزو کی تصویریں سیاہ پردۂ شب پر بکھیر دیں میں نے رواں تھے میرے رگ و پے میں ان گنت نغمے وہ دکھ کے گیت جو لب آشنا نہیں اب تک میں ...

    مزید پڑھیے

    دوری

    مری نظر میں ہے اب تک وہ شام وہ محفل وہ اک ہجوم طرب وہ نشاط نغمہ و نور شریر لڑکیاں رنگین تتلیاں بے تاب لبوں پہ گل کدۂ گفتگو کھلائے ہوئے وہ قہقہے وہ مسرت کی نقرئی جھنکار اور اس ہجوم میں تم جیسے گلستاں میں بہار میں اپنے گوشۂ کم تاب میں ہجوم سے دور اداس نظروں میں مدھم دیے جلائے ...

    مزید پڑھیے

    کہی ان کہی

    لفظ تصویریں بناتے ترے ہونٹوں سے اٹھے تھے لیکن دیکھتے دیکھتے تحلیل ہوئے ان کی حدت مری رگ رگ میں رواں تھی سو رہی پھر ترے ہاتھوں کا لمس ایسے ملائم الفاظ تیری آنکھوں کی چمک روشن و مبہم الفاظ اور وہ لفظ جو لفظوں میں نہاں رہتے ہیں اور وہ لفظ کہ اظہار کے محتاج نہیں پھر بھی ہیں ان کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    تنہا

    اک شاخ سے پتا ٹوٹ گرا اور تو نے ٹھنڈی آہ بھری اک شاخ پہ کھلتا شگوفہ تھا تو اس سے بھی بیزار سی تھی تو اپنے خیال کے کہرے میں لپٹی ہوئی گم سم بیٹھی تھی تو پاس تھی اور میں تنہا تھا میرے دل میں تیرا غم تھا تیرے دل میں جانے کس کا ہم دونوں پاس تھے اور اتنے انجان ہوا کا ہر جھونکا اک ساتھ ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3