Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی غزل

    رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

    رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام شاید اس رات وہ مہتاب لب جو آئے ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیب سراب دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو ...

    مزید پڑھیے

    کتنی دیر اور ہے یہ بزم طربناک نہ کہہ

    کتنی دیر اور ہے یہ بزم طربناک نہ کہہ راس آتی ہے کسے گردش افلاک نہ کہہ کیوں ٹھہرتا نہیں گلزار میں کوئی موسم کیا کشش رکھتی ہے خوشبوئے‌ تہہ خاک نہ کہہ دیکھ تو رنگ تمناؤں کی بیتابی کے کل فنا ہے مگر اے صاحب ادراک نہ کہہ درد کی آنچ ابد تک ہے کسی روپ میں ہو آج کے پھول کو آئندہ کے خاشاک ...

    مزید پڑھیے

    گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

    گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے وہ وقت جس کی سحر ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شب غم سنور گئی ہے

    تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شب غم سنور گئی ہے سنہری پوروں سے خواب ریزے سمیٹتی ہر سحر گئی ہے مہکتے جھونکے کے حرف تسکیں میں جانی پہچانی لرزشیں تھیں تمہاری سانسوں کی آنچ کتنی قریب آ کر گزر گئی ہے اب اس کا چارہ ہی کیا کہ اپنی طلب ہی لا انتہا تھی ورنہ وہ آنکھ جب بھی اٹھی ہے دامان ...

    مزید پڑھیے

    شمع حق شعبدۂ حرف دکھا کر لے جائے

    شمع حق شعبدۂ حرف دکھا کر لے جائے کہیں تجھ کو ہی نہ تجھ سے کوئی آ کر لے جائے پہنے پھرتے ہیں جو پیراہن سقراط و مسیح ان کا بہروپ نہ دل تیرا لبھا کر لے جائے تو چڑھاوا تو نہیں ہے کہ کوئی سحر مقال سوئے مقتل تجھے لفظوں میں سجا کر لے جائے تو کوئی سوکھا ہوا پتہ نہیں ہے کہ جسے جس طرف موج ...

    مزید پڑھیے

    تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں

    تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں وگرنہ دل تو مرا مانتا نہ تھا کہ میں ہوں عجیب لمحہ وہ دیدار حسن یار کا تھا اس ایک پل کی تجلی میں یہ کھلا کہ میں ہوں نہ جانے بے خبری کے وہ کس مقام پہ تھا نظر اٹھاتا تو ہر گل پکارتا کہ میں ہوں ترے جمال کی کچھ روشنی سی پڑتی ہے بتا رہا ہے مجھے رنگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4