Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی غزل

    شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں

    شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں ہوائیں ہیں کہ پیہم چل رہی ہیں طلب رد طلب دونوں قیامت یہ آنکھیں عمر بھر جل تھل رہی ہیں چمکتا چاند چہرہ سامنے تھا امنگیں بحر تھیں بیکل رہی ہیں دبے پاؤں مری تنہائیوں میں ہوائیں خواب بن کر چل رہی ہیں سحر دم صحبت رفتہ کی یادیں مرے پہلو میں آنکھیں مل ...

    مزید پڑھیے

    منجمد ہونٹوں پہ ہے یخ کی طرح حرف جنوں

    منجمد ہونٹوں پہ ہے یخ کی طرح حرف جنوں سر کسی سیل زدہ شاخ کے مانند نگوں کہاں سرما نفس الفاظ کہاں سوز دروں لالۂ دشت زمستاں ہے میں جو بات کہوں میں کہاں پہنچا کہ ہر بت جسے پوجا اب تک ہے شکستہ سر خاک اور میں شکستہ تو ہوں رحم کر خواب تمنا پہ نگاہ نگراں ٹوٹ کر چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    فضائیں اس قدر بے کل رہی ہیں

    فضائیں اس قدر بے کل رہی ہیں یہ آنکھیں رات بھر جل تھل رہی ہیں دبے پاؤں مری تنہائیوں میں ہوائیں خواب بن کر چل رہی ہیں سحر دم صحبت رفتہ کی یادیں مرے پہلو میں آنکھیں مل رہی ہیں ترا غم کاکلیں کھولے ہوئے ہے مرے سینے میں شامیں ڈھل رہی ہیں اندھیروں میں کمی کیا ہوگی لیکن یہ شمعیں شام ...

    مزید پڑھیے

    کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا

    کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا میں پیاس بانٹتا ہوں ضرورت نہیں تو جا میں شہر شہر خوابوں کی گٹھری لیے پھرا بے دام تھا یہ مال پہ گاہک کوئی نہ تھا پتھر پگھل کے ریت کے مانند نرم ہے درد اتنی دیر ساتھ رہا راس آ گیا سینوں میں اضطراب ہے گریہ ہوا میں ہے کیا وقت ہے کہ شور مچا ہے دعا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں نہاں ہے جو مناجات وہ تم ہو

    آنکھوں میں نہاں ہے جو مناجات وہ تم ہو جس سمت سفر میں ہے مری ذات وہ تم ہو جو سامنے ہوتا ہے کوئی اور ہے شاید جو دل میں ہے اک خواب ملاقات وہ تم ہو دن آئے گئے جیسے سرائے میں مسافر ٹھہری رہی آنکھوں میں جو اک رات وہ تم ہو ہر بات میں شامل ہیں تصور کے کئی رنگ ہر رنگ تصور میں ہے جو بات وہ ...

    مزید پڑھیے

    اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں

    اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آئندہ نہیں تیرے دل میں کوئی غم میرا نمائندہ نہیں آگہی تیری مژہ پر ابھی رخشندہ نہیں دل ویراں دم عیسیٰ ہے گئے وقت کی یاد کون سا لمحۂ رفتہ ہے کہ پھر زندہ نہیں تو بھی چاہے تو نہ آئے گی وہ بیتی ہوئی رات ہے وہی چاند ...

    مزید پڑھیے

    آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے

    آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے کوئی تو دل کی باتیں چھیڑو یارو محفل یاراں ہے میرے ہر آدرش کا عالم اب تو عالم ویراں ہے دل میں تیری تمنا جیسے موج ریگ بیاباں ہے پاؤں تھکن سے چور ہیں لیکن دل میں شعلۂ امکاں ہے میرے لیے اک کرب مسلسل تیرا جمال گریزاں ہے مجھ سے ملنے کے خواہاں ...

    مزید پڑھیے

    چھیڑی بھی جو رسم و راہ کی بات

    چھیڑی بھی جو رسم و راہ کی بات وہ سن نہ سکے نگاہ کی بات ہر لحظہ بدل رہے ہیں حالات مجھ سے نہ کرو نباہ کی بات کہتے ہیں تری مژہ کے تارے خود میری شب سیاہ کی بات اب ہے وہ نگہ نہ وہ تبسم کچھ اور تھی گاہ گاہ کی بات کیا یاد نہ آئے گا یہ انجام کس دل سے کریں گے چاہ کی بات

    مزید پڑھیے

    افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے

    افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے شدت کی محبت میں شدت ہی کے غم پہنچے احوال بتائیں کیا رستے کی سنائیں کیا با حالت زار آئے بادیدۂ نم پہنچے جس چہرے کو دیکھا وہ آئینۂ دوری تھا دیوار کی صورت تھا جس در پہ قدم پہنچے کچھ لب پہ کچھ آنکھوں میں لے آئے سجا کر ہم جو رنج کہ ہاتھ آئے جو غم کہ ...

    مزید پڑھیے

    نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو

    نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو مری سانسوں کے تار الجھا گئی ہو در و دیوار میں ہے اجنبیت میں خود بھی کھو گیا تم کیا گئی ہو پریشاں ہو گئے تعبیر سے خواب کہ جیسے کچھ بدل کر آ گئی ہو تمنا انتظار دوست کے بعد کلی جیسے کوئی مرجھا گئی ہو یہ آنسو یہ پشیمانی کا اظہار مجھے اک بار پھر بہکا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4