Zia Fatehabadi

ضیا فتح آبادی

ضیا فتح آبادی کی غزل

    لب پر دل کی بات نہ آئی

    لب پر دل کی بات نہ آئی واپس بیتی رات نہ آئی خشک ہوئیں رو رو کر آنکھیں مدھ ماتی برسات نہ آئی میری شب کی تاریکی میں تاروں کی سوغات نہ آئی مے خانے کی مست فضا میں راس مجھے ہیہات نہ آئی دل تو امڈا رو نا سکا میں چھائی گھٹا برسات نہ آئی میرا چاند نکلنے کو تھا شام سے پہلے رات نہ ...

    مزید پڑھیے

    تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے

    تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے شاخ در شاخ اب کوئی ڈھونڈا کرے پتہ مجھے میں تو خود ٹوٹا ہوں آندھی نے نہیں توڑا مجھے لغزش پا نے دیا ہر راہ میں دھوکا مجھے تا در منزل تو ہی اے جذب دل پہنچا مجھے صورت آئینہ حیرت سے وہ تکتا رہ گیا آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو

    جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو ہوس نے عشق کو گھیرا ہے دیکھیے کیا ہو گئی بہار مگر آج بھی بہار کی یاد دل حزیں کا سہارا ہے دیکھیے کیا ہو خموش شمع محبت ہے پھر بھی حسن کی ضو گلوں سے تا بہ ثریا ہے دیکھیے کیا ہو شب فراق کی بڑھتی ہوئی سیاہی میں خدا کو میں نے پکارا ہے دیکھیے کیا ...

    مزید پڑھیے

    حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے

    حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے کائنات رقصاں ہے زندگی غزل خواں ہے عشرتوں کے متلاشی غم سے کیوں گریزاں ہے تیرگی کے پردے میں روشنی کا ساماں ہے گیت ہیں جوانی ہے ابر ہے بہاریں ہیں مضطرب ادھر میں ہوں تو ادھر پریشاں ہے دھوپ ہو کہ بارش ہو تو ہے مونس و ہمدم مجھ پہ یہ ترا احساں اے غم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2