لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں
لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں غرقاب سفینوں کے سسکنے کی صدا ہوں اک خاک بہ سر برگ ہوں ٹہنی سے جدا ہوں جوڑے گا مجھے کون کہ میں ٹوٹ گیا ہوں اب بھی مجھے اپنائے نہ دنیا تو کروں کیا ماحول سے پیمان وفا باندھ رہا ہوں مستقبل بت خانہ کا حافظ ہے خدا ہی ہر بت کو یہ دعویٰ ہے کہ اب میں ہی خدا ...