ذیشان ساجد کی غزل

    پھیلی ہوئی ہے ساری دشاؤں میں روشنی

    پھیلی ہوئی ہے ساری دشاؤں میں روشنی لیکن نہیں چراغ کی چھاؤں میں روشنی اب تو پنپنے والی ہیں روشن خیالیاں آئی نئی نئی مرے گاؤں میں روشنی اک ہاتھ دوسرے کو سجھائی نہ دے مگر ہم نے چھپا رکھی ہے رداؤں میں روشنی دین و معاشیات و سیاست کے پیشوا ذہنوں میں تیرگی تو اداؤں میں روشنی سب لوگ ...

    مزید پڑھیے

    دیوار و در تھے جان سرائے نکل گئے

    دیوار و در تھے جان سرائے نکل گئے اس بار سائبان سے سائے نکل گئے دنیا مشاعرہ ہے سو زخموں کی داد ہو ہم آئے چند شعر سنائے نکل گئے ہم اپنے دل کے شوق بھلا کب نکالیں گے تنخواہ میں تو صرف کرائے نکل گئے جس نے عمل کیا اسے مہنگا بہت پڑا فارغ تو دے کے مفت میں رائے نکل گئے آنکھیں جھپک رہا ...

    مزید پڑھیے

    کام اتنے ہیں کہ آرام نہیں جانتے ہیں

    کام اتنے ہیں کہ آرام نہیں جانتے ہیں لوگ یہ سب سے اہم کام نہیں جانتے ہیں فیس بک پر ہیں مرے جاننے والے لاکھوں میرے ہم سایے مرا نام نہیں جانتے ہیں عشق میں ذہن کو تکلیف نہ دی دل کی سنی ہم اسی واسطے انجام نہیں جانتے ہیں ہمیں بس اتنا پتا ہے کہ خدا ہوتا ہے ہم ان اقسام کی اقسام نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کب تک وہ محبت کو نبھاتا نظر آتا

    کب تک وہ محبت کو نبھاتا نظر آتا اب میں بھی نہیں جان سے جاتا نظر آتا تم تو مری ہر سمت ہواؤں کی طرح ہو موسم کوئی فرقت کا جو آتا نظر آتا ہے روشنی اتنی کہ دکھائی ہی نہ کچھ دے ورنہ ہمیں اس طاق میں داتا نظر آتا چلتی ذرا تیزی سے ہوا تو میں پتنگیں کچھ اور بلندی پہ اڑاتا نظر آتا منظر میں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے بعد تمہی تم رہے ہو آنکھوں میں (ردیف .. ی)

    تمہارے بعد تمہی تم رہے ہو آنکھوں میں تمہاری تو مرے خوابوں تلک رسائی رہی سب آس پاس تھے لیکن نظر نہیں آئے تعلقات پہ اتنی سموگ چھائی رہی تری خدائی کو ہم دیکھ ہی نہیں پائے کہ ہم پہ تو ترے بندوں ہی کی خدائی رہی سفر کٹے کہ نہیں نقش پا رہے لیکن خیال و خواب رہے رنگت حنائی رہی یہ کیسا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2