Zeenatullah Javed

زینت اللہ جاوید

  • 1946

زینت اللہ جاوید کی غزل

    در پہ آئیں بھی ترے ہم تو وہ زنجیر کہاں

    در پہ آئیں بھی ترے ہم تو وہ زنجیر کہاں تیرا انصاف کہاں عدل جہانگیر کہاں شاہ عالم تو کنیزوں پہ نظر رکھتے ہیں ہم کو وہ یاد کریں اپنی یہ تقدیر کہاں دل یہ کہتا ہے کہ اک دن وہ نمایاں ہوگا لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں شبیر کہاں اپنی آنکھیں ہی منافق ہوں تو منظر کیسے خواب بک جائیں تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی دانشوری سے ڈرتا ہوں

    اپنی دانشوری سے ڈرتا ہوں جاہلوں کو سلام کرتا ہوں کیسا ناداں ہوں زندگی میں بھی تیری چاہت میں روز مرتا ہوں اس میں پستی بھی ساتھ دیتی ہے جب بلندی سے میں اترتا ہوں جانے کس وقت موت آ جائے بس یہی سوچ کر سنورتا ہوں مجھ کو محسوس کر کہ میں تجھ سے خوشبوؤں کی طرح گزرتا ہوں آسماں تک یہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم شکستہ دل ستم گر بن گئے

    ہم شکستہ دل ستم گر بن گئے آئنے ٹوٹے تو خنجر بن گئے ہم پرندوں سے ہنر چھینے گا کون جل گیا اک گھر تو سو گھر بن گئے وقت کے دھارے نے بدلا وہ مزاج شبنمی قطرے سمندر بن گئے خوش نما گنبد تو کوئی اور ہے ہم تو بنیادوں کے پتھر بن گئے اے خدا اپنی خدائی دیکھ لے لوگ تو خود ہی پیمبر بن گئے اب ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پر ایک اور بھی چہرہ لگائیے

    چہرے پر ایک اور بھی چہرہ لگائیے دل چاہے رو رہا ہو مگر مسکرائیے ایسا نہ ہو کہ اپنی ہی صورت پہ شک پڑے اتنا بھی آئنے کو نہ منہ سے لگائیے ہو فاصلہ تو اور بھی بڑھ جاتی ہے کشش کچھ دور جا کے اور بھی نزدیک آئیے کانٹوں سے میرے پھولوں کو نسبت نہیں کوئی میں شاخ دل ہوں مجھ سے نہ دامن ...

    مزید پڑھیے

    ہے مجھ میں بھی کوئی نگہبان جیسا

    ہے مجھ میں بھی کوئی نگہبان جیسا میں اپنے میں رہتا ہوں میزان جیسا ہمیشہ ہی اک پھول کھلتا رہے گا مری شاخ دل پر بھی ایمان جیسا تہ خاک ہونا ہے گلزار ہونا بظاہر یہ سودا ہے نقصان جیسا کسی اژدہے کا نہ سایہ ہو اس پر ہرا پیڑ ہو کر ہے ویران جیسا بہر حال ہم زندگی جی کے دیکھے یہ مضموں نہیں ...

    مزید پڑھیے