زینت شیخ کی غزل

    تیری چاہت ہی مری زیست کا سرمایہ ہے

    تیری چاہت ہی مری زیست کا سرمایہ ہے خود کو کھویا ہے تو اب پیار ترا پایا ہے جس کی خاطر مری آنکھوں کے دیے روشن تھے آج آنگن میں وہ مہتاب اتر آیا ہے شب فرقت میرے آئینۂ دل میں ہمدم تو نہ آیا تو ترا عکس ابھر آیا ہے اک نہ اک دن اسے احساس ندامت ہوگا بے سبب اس نے مرے پیار کو ٹھکرایا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    اب میں خود کو آزمانا چاہتی ہوں

    اب میں خود کو آزمانا چاہتی ہوں غم میں کھل کر مسکرانا چاہتی ہوں یہ تماشہ بھی دکھانا چاہتی ہوں آگ پانی میں لگانا چاہتی ہوں ہجرتوں کا بوجھ اب اٹھتا نہیں ہے مستقل کوئی ٹھکانا چاہتی ہوں دشمنوں کا امتحاں میں لے چکی ہوں دوستوں کو آزمانا چاہتی ہوں مجھ کو زینتؔ سونے دیتی ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی دھوپ میں ہم تو جلتے رہے

    عشق کی دھوپ میں ہم تو جلتے رہے آبلے پڑ گئے پھر بھی چلتے رہے اک چراغ محبت جلا تھا کہیں شمع کی طرح ہم بھی پگھلتے رہے بے حجابانہ محفل میں وہ آ گئے اور دوانوں کے ارماں مچلتے رہے تنگ حالی میں پورے نہیں ہو سکے خواب مفلس کی آنکھوں میں پلتے رہے انتہا ہو گئی وحشیوں کی یہاں کتنی معصوم ...

    مزید پڑھیے

    روز اب آگ پہ چلنا ہوگا

    روز اب آگ پہ چلنا ہوگا اسی ماحول میں پلنا ہوگا راستہ تم کو بدلنا ہوگا ورنہ کانٹوں پہ ہی چلنا ہوگا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے یہاں دشت ظلمت سے نکلنا ہوگا ہم اگر حوصلہ بردار رہے چڑھتے سورج کو بھی ڈھلنا ہوگا دھندھ میں گم ہوا منزل کا سراغ اب ہمیں ہاتھ ہی ملنا ہوگا سیر گلشن کی اجازت ...

    مزید پڑھیے

    برباد ہو گئے ہیں بہت تیرے پیار میں

    برباد ہو گئے ہیں بہت تیرے پیار میں افسردہ آج بیٹھے ہیں غم کے حصار میں لیتی ہوں روز لطف اذیت بہار میں انگلی چبھوتی رہتی ہوں میں نوک خار میں کب لوٹ کر تو آئے گا اے میرے ہم نشیں صدیاں گزر گئیں ہیں ترے انتظار میں بکھرا ہوا ہے چار سو یادوں کا اک ہجوم ہلچل مچی ہوئی ہے دل بے قرار ...

    مزید پڑھیے