اک ایسی ہما میرے سر پر بٹھا دے
اک ایسی ہما میرے سر پر بٹھا دے جو سوئی ہوئی ہے وہ قسمت جگا دے پڑھی لکھی میں بھی ہوں یا رب کرم کر خزانے کا مجھ کو منسٹر بنا دے
اک ایسی ہما میرے سر پر بٹھا دے جو سوئی ہوئی ہے وہ قسمت جگا دے پڑھی لکھی میں بھی ہوں یا رب کرم کر خزانے کا مجھ کو منسٹر بنا دے
آنے کی پڑی ہے کبھی جانے کی پڑی ہے اس دل کو فقط ملنے ملانے کی پڑی ہے بادل بھی لگاتار ہیں چھائے ہوئے اس پر اور چاند کو صورت بھی دکھانے کی پڑی ہے لاشیں بھی پڑی ہیں یہاں چیخیں بھی بہت ہیں اس وقت بھی لوگوں کو خزانے کی پڑی ہے اک بار اسے میں نے فقط جان کہا تھا اب اس سے مجھے جان چھڑانے کی ...
کردار ہے اور اپنی کہانی سے جڑا ہے انسان تو بس عالم فانی سے جڑا ہے میں کیسے کہوں پیاس سے مرتے نہیں پنچھی یہ سانس کا رشتہ بھی تو پانی سے جڑا ہے دل اب بھی تری آرزو کرتا ہے مسلسل دل اب بھی مرا یاد کے پانی سے جڑا ہے ہر شخص ہی دنیا سے چلا جائے گا اک دن ہر شخص ہی جب نقل مکانی سے جڑا ...
زندگی بھر جو کمائی مرے کام آئی ہے روح تک اتری ہوئی زخم کی گہرائی ہے لوگ جاگیروں کے مالک ہیں بہت دولت ہے اپنی تقدیر میں بے وجہ سی دانائی ہے کھینچ دی سونے کی دیوار نہ سوچا یہ کبھی کچی بستی میں جو رہتا ہے مرا بھائی ہے
اس واسطے وہ قابل دستار نہیں تھا وہ شخص کسی شہر کا سردار نہیں تھا منظر یہ مری آنکھ نے دیکھے ہیں لگاتار دیوار تو تھی سایۂ دیوار نہیں تھا پتھر تھا محبت کو نہیں جان سکا وہ وہ شخص تو ہرگز مرا دل دار نہیں تھا جانا ہے ہمیں لوٹ کے ہرگز نہیں رکنا کیا ہم نے بتایا تمہیں سو بار نہیں ...
محبت کا جہاں میں گر محبت ہی صلہ ہوتا نہ آنکھوں سے کسی کی درد کا آنسو گرا ہوتا یہ تیری دل نشیں دنیا بھی جنت کی طرح ہوتی سرشت آدمی کو بس نہ اتنا شر دیا ہوتا
انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں سچ پوچھئے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں ہم کو تو کوئی شخص ابھی تک ملا نہیں چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار وہ ہو کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں کشتی کو تو نے چھوڑ دیا یوں ہی ناخدا کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا خدا ...
فریب وعدۂ فردا ہے اور جھوٹی تسلی بس تعلق آپ کا ہے کیا سیاست کے گھرانے سے تمہاری شاعری سے دل ہی جلتا ہے فقط زیبیؔ کہ ممکن ہی نہیں اصلاح یوں جاں کو کھپانے سے
مجنوں بنا دیا تو مکمل بنا دیا مجھ کو تو میرے عشق نے پاگل بنا دیا دل نے کسی کی یاد کو چھوڑا نہیں کبھی دل نے کسی کی یاد کو آنچل بنا دیا اتنا میں تیری یاد میں برسی ہوں ٹوٹ کر آنکھوں کو جیسے میں نے تو بادل بنا دیا لوگوں کا اک ہجوم تھا جانے کدھر گیا بستی کو کس نے رات میں جنگل بنا ...
آخری اب ختم ہونے کو ہے باب زندگی لو مکمل ہو گئی زیبیؔ کتاب زندگی لکھ رہی ہوں نام تیرے انتساب زندگی صرف تو ہے صرف تو ہے انتخاب زندگی راحتوں کے اور غموں کے سارے موسم تجھ سے ہیں تو جمال فکر و فن تو آفتاب زندگی اپنے اپنے ہر عمل کا گوشوارہ ساتھ ہے اب تمہارے روبرو ہوگا حساب ...