Zeb Usmania

زیب عثمانیہ

  • 1913

زیب عثمانیہ کی نظم

    بچوں کا پیغام وطن کے نام

    ہم صلح و مروت کا جب ہاتھ بڑھا دیں گے اک عمر کے روٹھوں کو آپس میں ملا دیں گے ملا و برہمن اب مایوس نہ ہوں ہرگز ہم مسجد و مندر کے جھگڑوں کو چکا دیں گے کیوں دکھ ہو غریبوں کو ہم کس لئے ہیں آخر جو ان کو ستائیں گے ہم ان کو مٹائیں گے آپس کی عداوت سے ہر ڈوبتی کشتی کو احسان و مروت سے ہم پار لگا ...

    مزید پڑھیے

    پرندے

    باغوں میں جب اشجار پہ گاتے ہیں پرندے موسم کا کوئی جشن مناتے ہیں پرندے کہسار پہ جب چلتی ہیں یخ بستہ ہوائیں مل کر سوئے میداں اتر آتے ہیں پرندے اڑ جاتے ہیں پھر وادیٔ کہسار کی جانب میداں میں کڑی دھوپ جو پاتے ہیں پرندے چنتے ہیں مکاں پھونس کے بے خانماں کچھ لوگ یا گھونسلے تنکوں کے بناتے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی انقلاب کہاں ہوا

    جو بدل بھی جائیں سیاستیں بنیں ملتوں سے ریاستیں یہ تو ذہن کی ہیں نفاستیں ابھی انقلاب کہاں ہوا ہوئی بے وطن کئی ملتیں سہی فرد فرد نے ذلتیں یہ حکومتوں کی ہیں علتیں ابھی انقلاب کہاں ہوا وہی مفلسوں کی روایتیں وہی منعموں کی عنایتیں وہی کار خیر کی غایتیں ابھی انقلاب کہاں ہوا وہی بعد ...

    مزید پڑھیے

    حمد کے معنی

    گھر سے جا کر روز سویرے مکتب آ کر روز سویرے جو نغمے گاتے ہو اکثر گا کر لہراتے ہو اکثر ہے تو وہ بھی حمد خدا کی حمد خدائے ارض و سما کی لیکن وہ تعریف بھی کیا ہے صرف زباں پر جس کی صدا ہے معنی ہیں یہ حمد خدا کے حمد خدائے ارض و سما کے رب کے نام میں ہے جو نیکی وہ ہم میں پیدا ہو نیکی نام ہوں رب ...

    مزید پڑھیے

    آوازیں

    افلاک کے تاروں میں جلتی بجھتی ہوئی کچھ آوازیں ہیں کہسار کے پھولوں میں بکھری بہکی ہوئی کچھ آوازیں ہیں ہے موسم گل کی آمد سے اشکال چمن میں تبدیلی یا مرغ سحر کی گلشن میں بدلی ہوئی کچھ آوازیں ہیں زردار کی ہر آواز میں ہے بپھری ہوئی صورت کا نقشہ مزدور نحیف و بے چارے سہمی ہوئی کچھ آوازیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک نرالا کھیل

    آؤ تمہیں اک کھیل بتائیں چھوٹا سا اک گاؤں بسائیں اس میں کھیت اور باغ لگائیں جب ان باغوں میں پھل آئیں سب آپس میں بانٹ کے کھائیں آؤ تمہیں اک کھیل بتائیں حکم ہوا اس گاؤں کے اندر دھرتی کا مالک ہے ایشور راجہ کساں سب اس کے چاکر سب اس آگے سیس نوائیں آؤ تمہیں اک کھیل بتائیں مل کر کر دیں حکم ...

    مزید پڑھیے