Zareena Sani

زرینہ ثانی

زرینہ ثانی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    زندگی خار زار میں گزری

    زندگی خار زار میں گزری جستجوئے بہار میں گزری کچھ تو پیمان یار میں گزری اور کچھ اعتبار میں گزری منزل زیست ہم سے سر نہ ہوئی یاد گیسوئے یار میں گزری پھول گریاں تھے ہر کلی لرزاں جانے کیسی بہار میں گزری زندگانی طویل تھی لیکن موت کے انتظار میں گزری آپ سے مل کے زندگی اپنی جستجوئے ...

    مزید پڑھیے

    آبلہ پائی ہے محرومی ہے رسوائی ہے

    آبلہ پائی ہے محرومی ہے رسوائی ہے اس بت ناز کا دل پھر بھی تمنائی ہے میری آنکھوں سے ٹپکتے ہیں لہو کے آنسو آج بے لوث محبت کی بھی رسوائی ہے لب پہ پھر نام وہی حسن وہی آنکھوں میں اے دل زار یہی تیری شکیبائی ہے مضحکہ خیز ہے انداز تکلم ان کا مئے الفت مگر آنکھوں میں اتر آئی ہے ثانیؔ زار ...

    مزید پڑھیے

    اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے

    اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے ایسا نہ ہو کہ راہ سجھائی نہ دے مجھے سطح شعور پر ہے مرے شور اس قدر اب نغمۂ ضمیر سنائی نہ دے مجھے انسانیت کا جام جہاں پاش پاش ہو اللہ میرے ایسی خدائی نہ دے مجھے رنگینیاں شباب کی اتنی ہیں دل فریب بالوں پہ آتی دھوپ دکھائی نہ دے مجھے ترک تعلقات پہ ...

    مزید پڑھیے

    مایا جال نہ توڑا جائے

    مایا جال نہ توڑا جائے لوبھی من مجھ کو ترسائے مل جائے تو روگ ہے دنیا مل نہ سکے تو من للچائے میرے آنسو ان کا دامن ریت پہ جھرنا سوکھا جائے شیشے کے محلوں میں ہر دم کانچ کی چوڑی کھنکی جائے پیار محبت رشتے ناطے ثانیؔ کوئی کام نہ آئے

    مزید پڑھیے

    تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو

    تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو میں تیرا عکس ہوں اپنا جمال دے مجھ کو میں ٹوٹ جاؤں گی لیکن نہ جھک سکوں گی کبھی مجال ہے کسی پیکر میں ڈھال دے مجھ کو میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو میں سنگ کوہ کی مانند ہوں نہ بکھروں گی نہ ہو یقیں جو تجھے تو ...

    مزید پڑھیے

3 نظم (Nazm)

    میرے بچوں کی ہنسی

    میرے بچوں کی ہنسی قلقل مینا جیسے جیسے نغمہ ہو کسی جھرنے کا جیسے دوشیزہ کے پائل کی جھنک جیسے کلیوں کے چٹکنے کی صدا جیسے رفتار صبا جیسے خنداں ہو سحر جیسے محبوب کی الفت کی نظر ان کی معصوم ہنسی عیش انگیز سکوں مجھ کو عطا کرتی ہے میرا ہر درد مٹا دیتی ہے غم آفاق بھلا دیتی ہے میرے بچوں کی ...

    مزید پڑھیے

    یادیں

    عہد ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں مسکراتی ہوئی یادیں میری گنگناتی ہوئی یادیں میری اور محسوس یہ ہوتا ہے مجھے جیسے بنجر سی زمیں قطرۂ ابر گہر بار سے شاداب بنی جیسے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اک راہی کو چشمۂ آب ملا جیسے پامال تمنائیں ترشح پا کر پھر تر و تازہ ہوئیں جیسے ترسیدہ ...

    مزید پڑھیے

    کشمکش

    پھر کسی موڑ سے سنگیت کی لے آتی ہے رقص کرتے ہیں کہیں ساغر و مینا جیسے نکہت گل ہے کہیں مست گلشن ہے کہیں مہکی مہکی ہے ہوا بھینی بھینی سی فضاؤں میں ہے خوشبو شامل اک مقدس تنویر اک لطافت ہر سو مجھ کو لگتا ہے یہی چشم روشن مری ہستی کو ہے یوں گھیرے ہوئے جیسے ماں بچے کو باہوں میں جکڑ لیتی ...

    مزید پڑھیے