Zaman Kanjahi

زمان کنجاہی

زمان کنجاہی کی غزل

    خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے

    خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے کھلی فضا کی تمنا تھی اور قفس میں رہے بچھڑ کے مجھ سے عذاب ان پہ بھی بہت گزرے وہ مطمئن نہ کسی پل کسی برس میں رہے میں ایک عمر سے ان کو تلاش کرتا ہوں کچھ ایسے لمحے تھے جو اپنی دسترس میں رہے لہو کا ذائقہ کڑوا سا لگ رہا ہے مجھے میں چاہتا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے

    نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے بیاباں میں سمندر بس گیا ہے چمک دیوار و در کی کہہ رہی ہے کوئی اس گھر کے اندر بس گیا ہے ٹھکانہ مل گیا ہے اس کو آخر وہ میرے دل میں آ کر بس گیا ہے مہک اٹھا تصور کا جہاں بھی کوئی خوشبو کا پیکر بس گیا ہے جو تنہائی کے صحرا کا مکیں تھا زماںؔ آج اس کا بھی گھر بس ...

    مزید پڑھیے

    تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے

    تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے مجھے اندر سے صحرا کر دیا ہے خفا ہو کر شعاع مہر نے بھی مرے آنگن کو سونا کر دیا ہے سیاہی کس کی نظروں میں بھری ہے دلوں کو کس نے کالا کر دیا ہے یہ کس نے آئینوں پر گرد پھینکی ہر اک منظر کو دھندلا کر دیا ہے کسی بھی شاخ پر پتا نہیں ہے ہوا نے سب کو ننگا کر دیا ...

    مزید پڑھیے

    پر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے

    پر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے میں جس طرف بھی جاؤں ہوا میرے ساتھ ہے دنیا میں آج مجھ کو بلاؤں کا ڈر نہیں ہر لمحہ میری ماں کی دعا میرے ساتھ ہے دشوار راستوں میں حفاظت کرے گا وہ میں مطمئن ہوں میرا خدا میرے ساتھ ہے برسے گی آج دل کی زمیں پر یہ ٹوٹ کر گویا زمانؔ غم کی گھٹا میرے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا

    میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا کسی نے جو نہیں دیکھے وہ خواب دیکھوں گا وہ وقت آئے گا میری حیات میں جب میں محبتوں کے چمن میں گلاب دیکھوں گا گھرا ہوا ہوں اندھیروں میں غم نہیں مجھ کو شب سیاہ کے بعد آفتاب دیکھوں گا چلیں گے تیز بہت تیری یاد کے جھونکے میں اپنی آنکھ میں جب سیل آب ...

    مزید پڑھیے