خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے
خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے کھلی فضا کی تمنا تھی اور قفس میں رہے بچھڑ کے مجھ سے عذاب ان پہ بھی بہت گزرے وہ مطمئن نہ کسی پل کسی برس میں رہے میں ایک عمر سے ان کو تلاش کرتا ہوں کچھ ایسے لمحے تھے جو اپنی دسترس میں رہے لہو کا ذائقہ کڑوا سا لگ رہا ہے مجھے میں چاہتا ہوں کہ ...