سنگ بنیاد
کتنی بے نور تھی حیات میری راہ کا تھا پتہ نہ منزل کا پھر بھی اک اجنبی سا خوف دل میں لئے میں نے تم کو شریک غم مانا اور شریک حیات بھی جانا دونوں ایک دوسرے کو جان گئے ایک ملاقات صاف و سنجیدہ سنگ بنیاد زیست کہلائی
کتنی بے نور تھی حیات میری راہ کا تھا پتہ نہ منزل کا پھر بھی اک اجنبی سا خوف دل میں لئے میں نے تم کو شریک غم مانا اور شریک حیات بھی جانا دونوں ایک دوسرے کو جان گئے ایک ملاقات صاف و سنجیدہ سنگ بنیاد زیست کہلائی
تنہائی میں اکثر سوچا کرتی ہوں موت کیا اور حیات کیا ہے حاصل اور لا حاصل کے کیا معنی زندگی کے سفر میں چلتے چلتے ایک دن موت سے ٹکرائیں گے لڑکھڑائیں گے اور کچھ وقفے کے لیے دم لے کر آگے چلیں گے موت صرف ایک وقفہ ہے اور پھر سے حیات کا سفر ہوگا جاری جو عارضی نہیں دائمی ہوگا کبھی نہ ختم ...
تمہارا یہ پیار بھرا جملہ مجھے زندگی جینا آسان بناتا ہے میری کمہلائی ہوئی زندگی کو تر و تازگی سی بخشتا ہے تمہارے پیار بھرے الفاظ کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں آنکھوں میں اک چمک سی آ جاتی ہے ہونٹوں پہ مسکان چھا جاتی ہے تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ تم سچ میں بہت اچھی ہو میری بے جان ...
گم صم سی جب بھی اداس ہوتی ہوں چپکے سے چلا آتا ہے وہ دھیرے سے مسکراتا ہے اور دل میں سما جاتا ہے وہ اپنی رس بھری آواز میں میٹھی میٹھی باتوں سے دل کو بہلاتا ہے وہ اور دھیمے سے کہتا ہے کہ کر لو میرا یقین میں ہی تمہاری چاہت ہوں پیار سے کر لو مجھے قبول کیوں کہ میں ہی تمہاری انمول چاہت ...
اس دنیا سے کبھی دل نہ لگانا تم اس دنیا پر فریفتہ نہ ہونا تم یہ رنگینیاں یہ مستیاں سب عالم فانی ہے یاد رکھنا تم حسن ظاہر سے دھوکا نہ کھانا یہ کوچ کر جانے کا گھر ہے ٹھکانہ نہیں ہے یہ سدا کا غافل نہ ہو راستہ مختصر ہے زندگی یہ امتحاں کی ڈگر ہے فنا ہو جائے گی آخر یہی اس کی حقیقت ہے رہے ...
سکوں کی چھاؤں کے منتظر کب سے کھڑے غموں کی دھوپ میں تپ رہے ہیں دور تک کہیں بھی کوئی چاہت کا سایہ نظر آتا نہیں میرے مالک تو اگر چاہے ذرے کو سورج اور قطرے کو سمندر بھی بنا دے دکھوں کے ہم بہت مارے ہوئے ہیں اب اور امتحاں نہ لے برسا دے ہم پہ رحم کی بارش خدایا
مجھ سے اب دیکھی نہیں جاتیں تیری نمناک آنکھیں تیرے یہ بیتاب آنسو مجھ کو کر دیتے ہیں بے کل دل میرا کہتا ہے مجھ سے یہ تیرے اشکوں کے موتی ڈھل کر گرنے سے پہلے انہیں اپنی پلکوں پہ سجا لوں مسکرا کر تم کو دیکھوں اور تمہیں بھی ہنسنے کی ایک وجہ دوں یوں سارے غم تمہارے پل بھر میں بھلا دوں اور ...
ایک سایہ سا جو سائے کی طرح ہر پل میرے ساتھ رہتا ہے اور دو خوب صورت آنکھیں ہمیشہ میرا تعاقب کرتی ہیں ایک پر کشش آواز بلاتی ہے مجھ کو بار بار ایک پیارا سا وجود رہتا ہے میرے آس پاس اس انجانے سے حصار میں ہر پل مقید ہوں میں ایسا لگتا ہے جیسے میں ساز ہوں اور وہ ایک آواز رشتہ یہ ...
یہ اچانک میری آنکھیں شبنمی کیوں ہو جاتی ہیں شاید یہ یادیں ہیں ان کی جو بچھڑ گئے تنہا لمحوں میں شبنم کی صورت چپکے سے میری پلکوں کو بھگو جاتی ہیں
آج اندھیرے میں یوں اچانک یاد آ گئیں مجھ کو میری پیاری سی شفیق ماں میں نے دیکھا جب ایک موم بتی کو پگھل کر روشنی دیتے ہوئے