Zakir Khan Zakir

ذاکر خان ذاکر

ذاکر خان ذاکر کی غزل

    پر نور خیالوں کی برسات تری باتیں

    پر نور خیالوں کی برسات تری باتیں ہر شخص یہ کہتا ہے نغمات تری باتیں رخسار حسیں درپن آنکھوں میں حیا روشن کردار ترا صندل جذبات تری باتیں سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو جہاں کم ہے صدیوں کو بنا دے گی لمحات تری باتیں اب خود سے بھی ملنے کی فرصت ہی کہاں ہم کو ہر شام تری محفل ہر رات تری ...

    مزید پڑھیے

    لبوں کی جنبش نوائے بلبل ہے شوخ لہجہ ترا قیامت

    لبوں کی جنبش نوائے بلبل ہے شوخ لہجہ ترا قیامت دراز قامت غزال آنکھیں گلاب چہرہ ترا قیامت گھٹائیں زلفیں خمار پلکیں مہین آنچل پہ ماہ و انجم سہانی راتوں کی چاندنی میں ہے چھت پہ جلوہ ترا قیامت زمین دل پر ادائے دلبر چلائے نشتر اٹھائے محشر نظر اٹھانا نظر جھکانا ہر ایک حربہ ترا ...

    مزید پڑھیے

    فکر میں ڈوبے تھے سب اور با ہنر کوئی نہ تھا

    فکر میں ڈوبے تھے سب اور با ہنر کوئی نہ تھا زندگی کی شاخ پر پختہ ثمر کوئی نہ تھا گا رہے تھے اپنی اپنی دھن میں سب غزلیں مگر میرؔ و غالبؔ داغؔ و حسرتؔ یا جگرؔ کوئی نہ تھا رات بھر ظلمت میں لپٹی بستیاں کہتی رہیں چاند تارے کہکشاں جگنو قمر کوئی نہ تھا دیکھنے میں یوں بظاہر سب ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    تم کیا صاحب اور تمہاری بات ہے کیا

    تم کیا صاحب اور تمہاری بات ہے کیا دھرتی کی آکاش تلے اوقات ہے کیا صرف جنوں ہے اس کے سوا یہ کچھ بھی نہیں پیار نہ دیکھے نسل ہے کیسی ذات ہے کیا پوچھ رہی ہیں روٹھ کے جاتی خوشیاں بھی جیت سے پہلے جیون پتھ پر مات ہے کیا ہم کیا جانیں ہم نے اندھیرا اوڑھ لیا اس کی ادا کیا خواہش کیا جذبات ہے ...

    مزید پڑھیے

    آئینۂ خیال ترے روبرو کریں

    آئینۂ خیال ترے روبرو کریں جتنی شکایتیں ہیں سبھی دو بدو کریں جلنے لگا ہے اب تو یہ سانسوں کا پیرہن مایوسیوں کی آگ سے کب تک رفو کریں احباب کے خلوص میں اب وہ کشش کہاں پھر کیا ملیں کسی سے کوئی آرزو کریں اہل جنوں کے حق میں ہے حکم خدا یہی تبلیغ درد حرف و صدا کو بہ کو کریں ارض و سماں ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ تھے سب راستے درکار تھا سایہ ہمیں

    دھوپ تھے سب راستے درکار تھا سایہ ہمیں اک سراب خوش نما نے اور ترسایا ہمیں دل زمیں پر اس کا چہرہ نقش ہو کر رہ گیا بارہا پھر آئنے نے خود ہی ٹھکرایا ہمیں دھوپ صحرا دھول دریا خار رستوں کی چبھن منزلوں کے شوق نے کیا کیا نہ دکھلایا ہمیں مسترد کرتا گیا ہے دل ربا چہروں کو دل بعد اس کے ...

    مزید پڑھیے

    عمر گزری ہے کامرانی سے

    عمر گزری ہے کامرانی سے کوئی شکوہ نہیں جوانی سے مثل آدم ہے بے گھری اپنی کون ڈرتا ہے بے مکانی سے یوں مسلسل عذاب جھیلا ہے اشک لگنے لگے ہیں پانی سے ہم ہی کردار تھے کہانی کے ہم ہی باہر ہوئے کہانی سے سچ چھپانا محال ہے صاحب جھوٹ سے یا کہ لن ترانی سے کیا وہ پریاں قمر اسیر ہوئیں سنتے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی یوں بھی کبھی مجھ کو سزا دیتی ہے

    زندگی یوں بھی کبھی مجھ کو سزا دیتی ہے ایک تصویر کتابوں سے گرا دیتی ہے آپ اچھے ہیں برے ہیں کہ فقط بار حیات فیصلہ خلق خدا خود ہی سنا دیتی ہے کتنے نادیدہ مناظر سے اٹھاتی ہے نقاب رات آتی ہے تو خوابوں کو جگا دیتی ہے اب بھی محراب تمنا میں کسک ماضی کی شام ہوتے ہی کوئی شمع جلا دیتی ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کا یہ کرب سارا بے اثر ہو جائے گا

    ہجر کا یہ کرب سارا بے اثر ہو جائے گا کوئی نغمہ یار کا جب چارہ گر ہو جائے گا زندگی اک دائرہ ہے گر مخالف بھی چلیں فاصلہ ان دوریوں کا مختصر ہو جائے گا والہانہ دستکیں تم دے کے دیکھو تو سہی دل مرا خالی مکاں ہے یار گھر ہو جائے گا اب تمہارے معترف ہیں رہبر و رہزن سبھی تم جسے اپنا کہو گے ...

    مزید پڑھیے

    سکوت شب میں دل داغ داغ روشن ہے

    سکوت شب میں دل داغ داغ روشن ہے کہ زخم زخم نہیں ہے چراغ روشن ہے ابھی جنون سلامت ہے میرا جان غزل کرن کرن ہے تصور دماغ روشن ہے عجب مجاز و حقیقت ہے خطۂ دنیا جہاں پہ ہنس تو میلے ہیں زاغ روشن ہے وصال یار کے لمحے ہیں عارضی لیکن مشام جاں میں مگر سبز باغ روشن ہے ابھی ہے دشت میں زندہ فراق ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3