خیال و خواب میں ڈوبی دیوار و در بناتی ہیں
خیال و خواب میں ڈوبی دیوار و در بناتی ہیں کنواری لڑکیاں اکثر ہوا میں گھر بناتی ہیں کبھی غمزہ کبھی عشوہ کبھی شوخی کبھی مستی ادائیں بانکپن میں صندلی پیکر بناتی ہیں حسیں آنچل میں پنہاں کہکشائیں رات ہونے پر گھنی زلفوں پہ رقصاں دل ربا منظر بناتی ہیں جھکی پلکوں پہ ٹھہرے آنسوؤں پر ...