ذکی کاکوروی کی غزل

    آپ پر جب سے طبیعت آئی

    آپ پر جب سے طبیعت آئی روز و شب مجھ پہ قیامت آئی ہائے برباد کیا ہے کیا کیا راس ہم کو نہ محبت آئی اے ہوس کار تری نظروں میں کب بھلا میری حقیقت آئی زندگی بیت گئی ہے یوں ہی جب بھی آئی شب فرقت آئی ظلم گو اس نے بہت بار کئے لب پہ میرے نہ شکایت آئی تیری خاطر سے جہاں کو چھوڑا پھر بھی تجھ ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے بیمار کیا کرے کوئی

    دل ہے بیمار کیا کرے کوئی کس طرح سے دوا کرے کوئی جب کہ تم بن کہیں قرار نہ ہو پھر بتاؤ کہ کیا کرے کوئی وہ نہ اپنی روش کو بدلیں گے چاہے جو کچھ کہا کرے کوئی طاقتوں نے مری جواب دیا اب بتاؤ کہ کیا کرے کوئی بڑھتی جاتی ہیں دھڑکنیں دل کی آ بھی جائے خدا کرے کوئی ان کو فرصت کہاں سنورنے ...

    مزید پڑھیے

    اے دل تری آہوں میں اتنا تو اثر آئے

    اے دل تری آہوں میں اتنا تو اثر آئے جب یاد کروں ان کی تصویر نظر آئے ہر چند حسیں تھے تم ہر چند جواں تھے تم پر عشق کے سائے میں کچھ اور نکھر آئے میں کھیل سمجھتا تھا مجھ کو یہ خبر کیا تھی کیا جانئے کب میرے دل میں وہ اتر آئے اس حسن کے جلووں نے کچھ سحر کیا ایسا نظروں میں نہ میری پھر کچھ ...

    مزید پڑھیے

    تری جستجو تری آرزو مجھے کام تیرے ہی کام سے

    تری جستجو تری آرزو مجھے کام تیرے ہی کام سے تو ہی زندگی کا ہے مدعا مرا نام تیرے ہی نام سے ترا حسن ہے مری زندگی ترا عشق ہے مری عاشقی تری فکر ہے مری شاعری ترا ذکر میرے کلام سے ترے حسن نے یہ غضب کیا کہ ہر اہل دل ہوا مبتلا جسے دیکھا تیرا ہی صید تھا نہ کوئی بچا ترے دام سے گئی آدھی رات ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر ان سے ملاقات پہ رونا آیا

    آج پھر ان سے ملاقات پہ رونا آیا بھولی بسری ہوئی ہر بات پہ رونا آیا غیر کے لطف و عنایات پہ رونا آیا اور اپنوں کی شکایات پہ رونا آیا عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا ہم نہ سمجھے تھے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ترے ناز و ادا کو تیرے دیوانے سمجھتے ہیں

    ترے ناز و ادا کو تیرے دیوانے سمجھتے ہیں حقیقت شمع کی کیا ہے یہ پروانے سمجھتے ہیں مکمل وارداتیں ہیں مرے گزرے زمانے کی حقائق سے جو ناواقف ہیں افسانے سمجھتے ہیں جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں تری مخمور آنکھوں کو کوئی کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ساغر و جام کو چھلکاؤ کہ کچھ رات کٹے

    ساغر و جام کو چھلکاؤ کہ کچھ رات کٹے جام کو جام سے ٹکراؤ کہ کچھ رات کٹے کھائے جاتی ہے یہ تنہائی یہ تاریکئ شب دو گھڑی کے لئے آ جاؤ کہ کچھ رات کٹے چپ تمہاری مجھے دیوانہ بنا دیتی ہے آج للہ نہ شرماؤ کہ کچھ رات کٹے ہاں یہ وعدہ رہا اب پھر نہیں روکیں گے کبھی آج کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ کچھ رات ...

    مزید پڑھیے