زاہد الحق کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے ہم میں ان میں بات نہیں

    اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے ہم میں ان میں بات نہیں دنیا والے پوچھتے ہیں کیا پہلے سے حالات نہیں ایک اگر ہو عشق کی بازی تو پھر کوئی بات نہیں کون سا ایسا کھیل ہے جس میں ہم نے کھائی مات نہیں آنکھ سے آنسو بن کے بہیں جو ایسے سب جذبات نہیں دل کا زخم چھپا کے جینا سب کے بس کی بات نہیں دن تو دن ...

    مزید پڑھیے

    آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر

    آپ نے ہاتھ رکھا مرے ہات پر پھر گیا سارا الزام برسات پر آگ ساون نے ساری لگائی یہاں ترس کھائی نہ کچھ اس نے حالات پر وہ مرا امتحاں لیں گے ہرگز نہیں جان دے دیں گے ہم ان کی اک بات پر مہرباں وہ ہوئے جب گھڑی دو گھڑی ہم نے غزلیں کہیں چاندنی رات پر جیت کر بھی اسے اس قدر رنج ہے وہ پشیمان ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو شرافت میں ہر چیز گنوا دی ہے

    ہم نے تو شرافت میں ہر چیز گنوا دی ہے دنیا کا کبھی غم تھا اب موت کی شادی ہے سب زخم ہوئے تازہ یادوں سے الجھتے ہی بجھتے ہوئے شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے اک بار کہا ہوتا ہم آپ ہی مر جاتے تم نے تو ہمیں ساقی نظروں سے پلا دی ہے تنہائی مقدر ہے میرا بھی تمہارا بھی اس دور میں جینے کی کیا خوب ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا تھا کہ یہ بھی حوصلہ ہو جائے گا

    کون کہتا تھا کہ یہ بھی حوصلہ ہو جائے گا میرؔ و غالبؔ سے ہمارا سلسلہ ہو جائے گا ہم چلے ہیں کوچۂ قاتل کو یہ سوچے بغیر تم نہ آؤ ساتھ تب بھی قافلہ ہو جائے گا جس قلندر نے رکھا ٹھوکر میں تخت و تاج کو وہ ذرا سا سر ہلا دے زلزلہ ہو جائے گا بد دعاؤں نے مجھے محفوظ رکھا آج تک تم دعا دینے لگے ...

    مزید پڑھیے

    الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا

    الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا حصے میں مرے کون سا پتھر نہیں آیا ہم جو بھی ہوئے ہیں بڑی محنت سے ہوئے ہیں کام اپنے کبھی اپنا مقدر نہیں آیا کچھ اور نہیں بس یہ تو مٹی کا اثر ہے ظالم کو کبھی کہنا ہنر ور نہیں آیا دل کا سبھی دروازہ کھلا رکھا ہے میں نے پر اس کو نہ آنا تھا ستم گر نہیں ...

    مزید پڑھیے