Zahid Kamal

زاہد کمال

زاہد کمال کی غزل

    لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز

    لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز اپنی آواز بہر حال ہے اپنی آواز اب کنویں پر نظر آتا نہیں پیاسوں کا ہجوم تیرے پازیب کی کیا ٹوٹ کے بکھری آواز وہ کسی چھت کسی دیوار سے روکے نہ رکی گرم ہونٹوں کے تصادم سے جو ابھری آواز لوگو سچ مت کہو سچ کی نہیں قیمت کوئی کسی دیوانے کی سناٹے میں ...

    مزید پڑھیے

    زخم کا جو مرہم ہوتے ہیں

    زخم کا جو مرہم ہوتے ہیں لوگ ایسے اب کم ہوتے ہیں سورج ڈوب کے پھر ابھرے گا کیوں اتنے ماتم ہوتے ہیں کمسن لفظوں کے سینوں میں گہرے مطلب کم ہوتے ہیں لمحہ لمحہ عمر خوشی کی صدیاں صدیاں غم ہوتے ہیں پہلے آپ سمندر سے دریا خود ہی ضم ہوتے ہیں

    مزید پڑھیے

    مزاج شعر کو ہر دور میں رہا محبوب

    مزاج شعر کو ہر دور میں رہا محبوب کھنکتا لہجہ سلگتا ہوا نیا اسلوب تلاش اور تجسس کے باوجود ہمیں وہ چیز مل نہ سکی جو ہے وقت کو مطلوب کوئی بھی آنکھ وہاں تک پہنچ نہیں سکتی چھپا کے رکھے ہیں تو نے جہاں مرے مکتوب ابھی تو آس کے آنگن میں کچھ اجالا ہے سلونے چاند جدائی کے بادلوں میں نہ ...

    مزید پڑھیے