لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز
لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز اپنی آواز بہر حال ہے اپنی آواز اب کنویں پر نظر آتا نہیں پیاسوں کا ہجوم تیرے پازیب کی کیا ٹوٹ کے بکھری آواز وہ کسی چھت کسی دیوار سے روکے نہ رکی گرم ہونٹوں کے تصادم سے جو ابھری آواز لوگو سچ مت کہو سچ کی نہیں قیمت کوئی کسی دیوانے کی سناٹے میں ...